میں نے اپنی بیوی کو تین مرتبہ یہ کہا "طلاق دے رہا ہوں، طلاق دے رہا ہوں، طلاق دے رہا ہوں"۔ سوال یہ ہے کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟ کیا اب اس کے بعد ہم دونوں کے لیے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟
ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینا خلافِ سنت ہے، ایسا کرنے والا سخت گناہ گارہے، جس کی وجہ سے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، تاہم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے تو اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اس لیے آپ نے اپنی بیوی کو جو الفاظ کہے کہ "طلاق دے رہا ہوں، طلاق دے رہا ہوں، طلاق دے رہا ہوں" ان الفاظ سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، آپ دونوں کا نکاح ٹوٹ چکا ہے، دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ قائم ہوچکی ہے، اب رجوع بھی جائز نہیں ہے اور دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا بھی جائز نہیں ہے، عدت (تین ماہواریاں بشرطیکہ حمل نہ ہو) گزرنے کے بعد آپ کی سابقہ بیوی کسی بھی جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوں گی۔ اگر آپ کی سابقہ بیوی عدت گزرنے کے بعدکسی دوسرے شخص سے نکاح کرلیں، پھر اس دوسرے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد اس دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ طلاق دے دے تو پھر اس دوسرے شوہر کی عدت گزارنے کے بعد آپ کی سابقہ بیوی کا آپ کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا."
(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ج:1/ 349، ط: رشيدية)
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاعَ الثلاث معًا وإِن كانت معصية."
(ج:1، ص:529 ، ط: قدیمی)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها، وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج: 1/ 472، ط: دار الفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601100338
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن