بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی ذاتی ملکیت میں شوہر کا حق نہیں ہے، سوتیلی ماں کی جائیداد میں اولاد کا حصہ نہیں ہے


سوال

1) بیوی نے خود جاب کر کے بچت کی ،اسی رقم سے گھر خریدا، شوہر کا اس میں کوئی پیسہ نہیں تھا، ایسی صورت میں بھی کیا بیوی کی جائیداد میں وفات کے بعد شوہر کا شرعی حصہ ہوگا، بیوی کا کہنا ہے کہ میں اس گھر کی مالک ہوں، اگر زندگی میں میں اس کو فروخت کر دوں تو شوہر کا اس میں کوئی حق ہوگایا نہیں؟

2) کیا شوہر کی دوسری بیوی سے جو اولاد ہے اس اولاد کا اپنی سوتیلی ماں کی جائیداد میں حصہ ہوگا؟

3) شوہر نے زندگی میں کاروبار کے لیے جو رقم اپنی بیوی سے قرض لی ہو یا حج کے لیے لی ہو ، شوہر کی وفات کے بعد کیا  وہی بیوہ وراثت کی تقسیم پر وہ رقم مانگنے کا حق رکھتی ہے یا نہیں؟

4) ایک آدمی کی بیوی کا انتقال ہوا، اس کی دو بیٹیاں تھیں، اس شخص نے دوسری شادی کر لی، یہ دوسری بیوی سرکاری نوکری کرتی ہے کیا اس دوسری بیوی پر شرعاً واجب ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ان دو بیٹیوں کو خرچہ دے جو پہلی فوت شدہ بیوی سے ہیں؟

جواب

1) صورتِ مسئولہ میں اگر بیو ی نے اپنی ذاتی رقم سے گھر خریدا ہے تو بیوی اس کی مالک ہے، اگر شوہر کی زندگی میں بیوی کی وفات ہو جاتی ہے تو شوہر بیوی کی میراث میں اپنے حصہ کا حق دار ہوگا، لیکن اگر شوہر کا انتقال بیوی سے پہلے ہو گیا تو اس کے باقی ورثاء کا اس بیوی کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے، اگر بیوی اس مکان کو فروخت کر دے تب بھی شوہر کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔

2) دوسری بیوی کی اولاد کا ان کی سوتیلی ماں کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے، لیکن اگر سوتیلی ماں کا انتقال اس کے شوہر کی زندگی میں ہوا ہو اور پھر شوہر کا بھی انتقال ہوگیا ہو تو پھر شوہر کی دوسری بیوی کی اولاد  سوتیلی ماں کی جائیدا میں سے شوہر یعنی ان کے والد کا حصہ سے ملے گا۔

3) بیوی نے اگر شوہر کو کچھ قرض دیا تھا تو شوہر کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ سے بیوی کو اپنا حق وصول کرنے کا حق ہوگا۔

4)پہلی بیوی کی بیٹیوں کو خرچہ دینا  دوسری بیوی پر شرعاً واجب نہیں ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك)".

(‌‌‌‌كتاب الطلاق، باب النفقة، 3/ 572ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ويستحق الإرث) ولو لمصحف به يفتى وقيل لا يورث وإنما هو للقارئ من ولديه صيرفية بأحد ثلاثة (برحم ونكاح) صحيح فلا توارث بفاسد ولا باطل إجماعا (وولاء)".

(‌‌كتاب الفرائض، 6/ 762، أيضاً)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں