بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی ضروریات شوہر کے ذمہ ہیں نہ کہ والدین کے


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ میرا شوہر میرے سسر کے  کپڑے کی دکان پر کام کرتا ہے صبح سے شام تک ڈیوٹی دیتا ہے۔ میں جب شوہر سے جیب خرچ مانگتی ہو ں تو وہ کہتا ہے کہ میرے پیسے نہیں ہیں میرے ابو کے ہیں۔ میں بھی حرام ہونے کے ڈر سے مانگنا ترک کردیتی  ہوں کہ میرے سسر کے پیسے ہیں۔ میرا شوہر کہتا ہے کہ کچھ بھی ضرورت ہوتو میرے والد سے مانگو۔ لیکن میں یہ سوچتی ہوں کہ بار بار اپنے سسر سے کچھ مانگنا اور کئی بار میں اپنی ضروری چیزیں سسر سے نہیں منگوا سکتی ۔لیکن سوال یہ ہے کہ باپ نے بیٹے کی شادی کرنے کے بعد بیٹے کو احتیار نہیں دیا کہ وہ بیوی کی ضروریات کو پورا کرے۔ چوں کہ بہت سی اشیاء صرف بیوی کی ضرورت کی ہوتی ہیں ہر چیز شوہر اپنے والد کو بتا کر نہیں لا سکتا ۔ جب کہ گھر میں ساس بھی موجود ہے جن کو اگر ایک عورت ہونے کی وجہ سے کہا جائے کہ مجھے فلاں چیز کی ضرورت ہے تو وہ صاف کہتی ہیں کہ کیا ضرورت ہے مانگوانے کی روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی۔ عورت کی ذمہ داری شوہر کی ہے۔ اور شادی کے بعد کیا والدین کو بیٹے کو مکمل اختیار دینا نہیں چاہیے کہ وہ اپنی بیوی  اورا ب ایک چار مہینہ کا بچہ ہے جس کی پرورش خو د کرے میں چاہتی ہوں  کہ میرے سسر یاتو  بیٹے کو کاروبار ڈال کردیں یا اس کو کسی اور جگہ کام کرنے کی اجازت دیں یا پھر ان کواتنی رقم دیں کہ وہ اپنی بیوی بچے کی ضرورت پوری کرسکے شوہر کہتا  ہےمیرے والدین سے مانگو لیکن کئی بار عزت نفس کو ایک طرف رکھنے کے بعد میں نے ساس سسر سے مانگالیکن انہوں نے توجہ نہیں  دی شوہر کے والدین کی ہماری زندگی میں بہت مداخلت ہے دوسرا سوال یہ ہے کہ شوہر ہم بستری کے لیے بلائے مگر شوہر نے بیوی کو پانی کی سہولت میسر نہیں کی کہ وہ غسل جنابت کرسکےاور شوہر کے والدین پانی مہیا نہیں کرتےکہ ہم میاں بیوی غسل کر سکے انہوں نے ہمیں صرف پانی کی وہ ضرورت دی ہوئی ہے جس سے ہم رفع حاجت کرسکیں لیکن ہم دونوں میاں بیوی ہم بستری کے بعد پانی بہت مشکل سے بچا کر کبھی سخت سردی  میں ٹھنڈے پانی سے نہا لیتے ہیں شاید ہمارے ساس سسر چاہتے ہیں کہ ہم ہم بستری نہ کرسکیں  میں بہت پریشان ہوں کہ زندگی میں بہت مداخلت ہے ۔ میرے شوہر اور ساس سسر مجھے  میرے ماں باپ کے سامنے کہتےہیں کہ کسی  چیزکی  ضرورت ہوتو ہمیں بتاؤ لیکن جب میں ان کو بتاتی ہوں کہ فلاں چیز لا کر دیں  تو وہ نہیں لاکر دیتے وہ چاہتے ہیں کہ میرے والدین سے میں نہ مانگواور اگر سسرال میں مانگو بھی تو  لاکر نہیں دیتے اب میں اگر والدین سے نہیں مانگ سکتی سسرال والے بھی نہ لاکر دیں تو مجھے کیا کرنا چاہیے  مجھےاپنے ہاتھ میں اتنے پیسے بھی نہیں دیتے کہ میں خود خرچ کروں میرا شوہر میرے ساتھ  اچھاہے لیکن ا س کے پاس اختیارات نہیں ۔ اور وہ مجھے ہر چیز میں کہتا ہےکہ میرے والدین اجازت دیں تو میں بھی مان جاؤں گا وہ ہر فیصلے میں ان کی طرف دیکھتا ہےحتی کہ والدین کے گھر جانے یا رہنے کی اجازت لینے کابھی اپنے ماں باپ سے اجازت لینے کا کہتا ہے میرے شوہر نے والدین پر سب کچھ چھوڑا ہے لیکن میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ میرے شوہر کے والدین  میاں بیوی کے تعلقات اور حتی کہ ہم بستری، لین دین پیسے اور آنے جانے  میں مداخلت  کریں کوئی حل بتائیں۔

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی اور ان کے متعلقین کے رشتے قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے رابطوں سے نبھائے جائیں تو یہ رشتے کامیاب رہتے ہیں ،اسلام نے ہرمسلمان کو تمام تعلق داروں سے حسن معاشرت کا حکم دیاہے، جیسے بیوی پرشوہر کے حقوق اور اس کے والدین کا احترام وتوقیر لازم ہے، اسی طرح شوہر کے ذمہ بھی بیوی کے حقوق لازم ہیں، اورشوہر کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ آنے والی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی سمجھتے ہوئے اس سے وہی سلوک وبرتاؤ رکھیں جو حقیقی بیٹی سے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں جانبین کو  حقوق کے مطالبے کے بجائے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرناچاہیے، بیوی کو چاہیے کہ  اپنی ساس کی ہر بات برداشت کرے،ان کی ہر نصیحت کا  خندہ پیشانی سے استقبال کرے اورشوہر کے والدین کی خدمت کرے ،  یہ میاں بیوی دونوں کی سعادت اور اخروی نیک بختی ہے، یہ ہمت اور حوصلہ اور شوہر کے بزرگ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت بیوی کو لائق رشک بنادیتا ہے، نیز اس کی برکتوں کا مشاہدہ پھر میاں بیوی خود بھی کرتے ہیں۔اس لیے میاں بیوی حتی الامکان اسی کی کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت کریں، اگر ان سے کوئی سخت یا ناروا بات بھی ہوجائے تو  اس پر صبر کریں اوراللہ سے اجر کی امید رکھیں اور بیوی کی ضروریات کا خرچہ شوہر کے ذمہ ہے نہ کہ ساس اور سسر کے ذمہ لہذا شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کی ضروریات کو خو د پورا کرے اسی طرح شوہر کے ذمہ یہ بھی لازم ہے کہ وہ بیوی کو گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کردے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے، کسی اور کو اس میں دخل نہ ہو، فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے توبس حق ادا ہوگیا، عورت کو اس سے زیادہ کادعوی نہیں ہوسکتا، اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کردو لہذا صورت مسئوہ میں شوہر کو چاہیے میانہ روری کے ساتھ والدین اور بیوی دونوں کے حقوق ادا کرے ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية دخل بها أو لم يدخل كبيرة كانت المرأة أو صغيرة يجامع مثلها كذا في فتاوى قاضي خان سواء كانت حرة أو مكاتبة كذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الطلاق , الفصل الاول فی نفقة الزوجة جلد 1 ص: 544 ط: دارالفکر)

در المختار میں ہے:

"وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر."

(کتاب الطلاق , باب النفقة جلد 3 ص: 600 ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله وفي البحر عن الخانية إلخ) عبارة الخانية: فإن كانت دار فيها بيوت وأعطى لها بيتا يغلق ويفتح لم يكن لها أن تطلب بيتا آخر إذا لم يكن ثمة أحد من أحماء الزوج يؤذيها. اهـ.

قال المصنف في شرحه: فهم شيخنا أن قوله ثمة أشار للدار لا البيت؛ لكن في البزازية: أبت أن تسكن مع أحماء الزوج وفي الدار بيوت إن فرغ لها بيتا له غلق على حدة وليس فيه أحد منهم لا تمكن من مطالبته ببيت آخر."

(کتاب الطلاق , باب النفقة جلد 3 ص: 600 ط: دارالفکر)

 حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں: 

"بیوی کا یہ بھی حق ہےکہ اس کو کچھ رقم ایسی بھی دے جس کو وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکے، اس کی تعداد اپنی بیوی اور اپنی حیثیت کے موافق ہوسکتی ہے."

(منتخب انمول موتی، ص:142، ادارہ تالیفات اشرفیہ)

جیب خرچ دینے کی واقعی ضرورت ہے، مذکورہ عنوان کے تحت حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں:

"چوں کہ دینی ودنیوی مصارف (اخرجات) کی حاجت اکثر واقع ہوتی رہتی ہے۔ اور عورتوں کے پاس اکثر جدا گانہ مال نہیں ہوتا اس لیے مردوں کو مناسب ہے کہ نفقہ واجبہ (اور مہر) کے علاوہ حسب حیثیت کچھ خرچ ایسے مواقع کے لیے علیحدہ بھی دیا کریں۔۔۔"

(تحفہ زوجین،ص: 85، ط: المیزان) 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100591

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں