بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

تعلیق طلاق کی ایک صورت


سوال

میری اپنےشوہر سے لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں،جس کی وجہ سے میں ان سے باتیں نہیں کرتی تھی،ایک دن وہ مجھ سے لڑرہا تھا،میں اس کو جواب نہیں دے رہی تھی تو اس لڑائی میں اچانک اس نے کہا کہ ’’ تمہیں طلاق چاہیے‘‘میں نےکہا کہ  ’’میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا،لیکن اگر تم مجھے پال نہیں سکتے تو پھر مجھے طلاق دو‘‘پھر وہ اسی حالت میں چارپائی پر بیٹھ گیااور میری طرف ہاتھ بڑھاکر کہا کہ ’’ میں تمہیں تین بار اپنے ہاتھ کی طرف بڑھنے کا کہتا ہوں،اگر تم نہیں آئی تین بار میرے ہاتھ کی طرف تو تین مرتبہ تم مجھ پر طلاق ہوں‘‘،پھر اس نےشمار کیا ایک ایک ایک،پھر کہا دو،دو،دو،پھر کہاتین تین تین۔

اس کے بعد میں خاموش ہوگئی اور اس کے پاس نہیں گئی،اگلی صبح میرا شوہر اپنی بہن کو آواز دے رہا تھا تو اس کی ماں آگئی اور پوچھا کیوں چیخ رہے ہو،ناشتہ چاہیے؟تو اس نے اپنی ماں سے کہا کہ ’’اس طلاق یافتہ کو مجھ سے نکالو‘‘یہ بات اس نے کئی مرتبہ کہی ہے،مذکورہ لڑائی کے بعد سے ہم میاں بیوی تقریباً ایک سال کے عرصہ سےنہیں ملے ہیں،اب پوچھنایہ ہے کہ  طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ اور کتنی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃ ً صحیح ہےکہ اس کے شوہر نے لڑائی کے دوران اس  کی طرف ہاتھ بڑھاکر  یہ الفاظ بولے ہیں کہ ’’میں تمہیں تین بار اپنے ہاتھ کی طرف بڑھنے کا کہتا ہوں،اگر تم نہیں آئی تین بار میرے ہاتھ کی طرف تو تین مرتبہ تم مجھ پر طلاق ہوں‘‘توان الفاظ سے تین  طلاقیں  سائلہ کاشوہر کے ہاتھ کی طرف تین بار  نہ جانے  سے معلق ہوگئی تھی،پھر جب سائلہ خاموش ہوگئی اور اپنے شوہر کے پاس نہیں گئی تو شرط وقوع پذیر ہونے کی وجہ سے بیوی (سائلہ ) پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں،بیوی اپنے شوہر پرحرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،نکاح ختم ہوچکا ہے،اب رجوع جائز نہیں، اور دوبارہ  نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

بخاری شریف میں ہے:

" عن عائشة رضي الله عنها،ان رفاعة القرظي تزوج امراة، ثم طلقها، فتزوجت آخر، فاتت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت له انه لا ياتيها وانه ليس معه إلا مثل هدبة، فقال: لا، حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك ."

 ( كتاب الطلاق،‌‌ باب: إذا طلقها ثلاثا ثم تزوجت بعد العدة زوجا غيره فلم يمسها، رقم الحدیث:5317، ط: رحمانية)

ترجمہ:’’حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روايت ہے،کہ رفاعہ قرظی نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر انہیں طلاق دیدی تو اس عورت نے دوسرے شوہر سے شادی کرلی،پھر وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں،اور آپﷺ سے دوسرے شوہر کا ذکر کرنے لگی،کہ یا رسول اللہ یہ میرے پاس آتے ہی نہیں اور یہ کہ ان کے پاس کپڑے کے پھندنے کے سوا کچھ نہیں ہے،تو آپﷺ نے فرمایا تم پہلے شوہر کے پاس نہیں جا سکتی ہو ،یہاں تک کہ تم دوسرے شوہر کا مزہ چکھ لو،اور وہ تیرا مزہ چکھ لے۔‘‘(نصر الباری)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، 420/1، ط: رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

( کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة ومايتصل به، 1/ 473 ، ط : مكتبه رشيدية )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں