بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی طرف نسبت کیے بغیر طلاق دینے کا حکم


سوال

بندہ وسوسے کا مریض ہےاور جب وساوس کی  کثرت ہوتی ہے تو بندہ اپنے آپ سے کہتاہے زید نے اپنی بیوی کو طلاق دی،  اب  یہی جملہ  کہتے وقت بندہ کی نیت تھی زید ایک فرضی نام ہے، نہ تو یہ بندے  کا عرفی نام ہے اور نہ اس نام سے بندہ کا کوئی  تعلق ہے ،بندہ کا اصل نام بکر ہے، اب بندہ نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں  کیا اس سے بندہ  کے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کا یہ کہنا کہ زید نے اپنی بیوی کو طلاق دی  اور زید  فرضی نام ہے  تو ا سے اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہو گی  لیکن اس قسم کے جملوں سے احتراز ضروری ہے، سائل کثرت سے "لا حول و لا قوة الا بالله" پڑھتا رہے تاکہ وساوس سے بچا جاسکے۔

فتاوى هندية  میں ہے :

"قال امرأته عمرة بنت صبيح طالق وامرأته عمرة بنت حفص ولا نية له لا تطلق ‏امرأته فإن كان صبيح زوج أم امرأته وكانت تنسب إليه وهي في حجره فقال ‏ذلك وهو يعلم نسب امرأته أو لا يعلم طلقت امرأته ولا يصدق قضاء وفيما ‏بينه وبين الله تعالى لا يقع إن كان يعرف نسبها وإن كان لا يعرف يقع أيضا ‏فيما بينه وبين الله تعالى وإن نوى امرأته في هذه الوجوه طلقت امرأته في القضاء ‏وفيما بينه وبين الله تعالى كذا في خزانة المفتين".‏

 (کتاب الطلاق ، الافصل الاول فی طلاق الصریح ، 1 / 358، دار الفکر)‏

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں