بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی طرف نسبت کیے بغیر طلاق کے الفاظ ادا کرنا


سوال

میرے والد اور بھائی کو لیاری میں قتل کر دیا تھا،اس واقعہ کے بعد مجھے اکثر کوئی ناگوار بات پیش آنے پر اتنا غصہ آتاہے کہ میں اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتا ہوں ،ابھی حال ہی میں ایک واقعہ پیش آیا کہ میری ساس نے میری والدہ کو مارا جس پر مجھے غصہ آیا اور غصے کی حالت میں میں نے بہت سے ایسے کام کیے جو مجھے بالکل یاد نہیں ہیں ،بعد میں مجھے دوسرے لوگوں نے بتایا کہ آپ نے ایسا ایسا کیا ہے ،اس مرتبہ جب مجھے غصہ آیا تو میں نے ایک آدمی کی بائیک توڑی ،دیوارمیں مکےمارے اور اپنا سر بھی دیوار میں مارا اور اپنے چچا کو پنکھے میں مارنے لگا تھا ،ان کے ساتھ بدتمیزی بھی کی تھی ،یہ سب واقعات مجھے یاد نہیں تھے ،دوسرے لوگوں نے مجھے بتایا تو پھر  مجھے یاد آیا کہ میں نے ایساا یسا کیا ہے ،اس غصے   میں میں نے  اپنی بیوی کے گھروالوں کے متعلق کہہ دیاتھا کہ میں ان کو نہیں چھوڑوں گا ،انہوں نے میری والدہ کو مارا ہے اس لئے میں ان کو ماروں گا ،اس دوران میں نے کہا تھا کہ طلاق،طلاق،طلاق،اس دوران میری بیوی میرے سامنے نہیں تھی، وہ اپنے والدین کے گھر گئی ہوئی تھی ،یہ سب بھی مجھے یاد نہیں تھا ،بلکہ اس واقعہ کے دوسرے دن میں اپنی بیوی کو اپنے گھر لے آیا ،جب میں  اپنی بیوی کو اپنے گھر لایا تو میرے چچا زاد بھائی نے مجھے بتایا کہ آپ نے اس طرح کل طلاق کے الفاظ کہے تھے ،ان کے بتانے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں نے اس طرح کے الفاظ بولےتھے  ،پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس قدر غصےاور جنون کی حالت میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے کہ نہیں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل نے غصے کی جو کیفیت ذکر کی ہے ،اس میں عقل اس قدر مغلوب تھی کہ کیا کہہ رہا ہے اورکن سے کہہ رہا ہے ؟بالکل معلوم نہ  تھا،دوسرے یہ کہ  بیوی کی غیر موجودگی میں طلاق واقع ہونےکے لیے یہ ضروری ہے کہ شوہر  اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت کرے یا اس کی طرف طلاق   کی نسبت کرے، مثلاً میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، یا اپنی بیوی کا نام لے کر کہے کہ طلاق دی مگر صورتِ  مسئولہ میں نیت اور اضافت میں سے بھی کوئی ایک چیز موجود نہیں ہے ،اس لیے ان دووجوہات کی وجہ سے کہ عقل مغلوب تھی اور طلاق کی اضافت موجود نہیں ہے،طلاق واقع نہیں ہوئی اور نکاح برقرار ہے۔

امداد الفتاوی  میں ہے :

"غضب  تین صورت پر  ہے پہلی صورت ابتدائی غضب ہے اس طور پر کہ   اس کی عقل میں کچھ تغیر اور فتور نہ آیا اور اس حالت میں جو کچھ کہا تھا ابھی خوب معلوم  کرسکتا ہے  ،اس صورت میں اقوال اس  کے شرعاً نافذ اور معتبر ہیں یعنی طلاق وغیرہ اس کی شرعاًضرور واقع اور نافذ ہوگی،صورت ثانی یہ ہے غضب اس کا اس حد تک پہونچا کہ حالت غضب میں جو کچھ کہا تھا اور کیا کہا تھا،ابھی کچھ معلوم نہیں کرسکتا بالکل مدہوش اور مجنون ہوا اس حالت میں اقوال  اس کے شرعاً کچھ معتبر اور نافذ نہیں یعنی طلاق وغیرہ اس کی ہر گز نافذ اور واقع نہ ہوگی ،تیسری صورت  یہ ہےکہ  غضب اس کا بین المرتبتین ہے کہ اس طور کہ مثل مجنون کے نہ ہو ،یعنی غضب اس کا "فلایعلم مایقول و لایریدہ"  کے درجہ تک نہ پہنچا  اس حالت میں غضب پر ہے اور یہ مطلب "بحیث لم یصر کالمجنون"  سے معلوم ہوتا ہےاور اس صورت ثالثہ میں اقوال اس کے شرعاً معتبر اور نافذ نہ ہونے پر بہت سی دلیلیں  دلالت کرتی ہیں یعنی طلاق وغیرہ اس کی واقع اور نافذ نہ ہوگی۔ "

(ص:414،ط:مکتبہ دارالعلوم ) 

فتاوی شامی میں ہے :

"لايقع من غير إضافة إليها".

 ( كتاب الطلاق، باب الصريح،ج:3،ص:273،ط:سعید )

وفیه أیضاً:

"(قوله: ‌لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط و الخطاب من الإضافة المعنوية، و كذا الإشارة نحو هذه طالق، و كذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق."

(كتاب الطلاق، باب الصريح،ج: 3،ص:248،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں