بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی طرف اشارہ کر کے تین مرتبہ


سوال

 حضرت میں آپ سے مسئلہ طلاق سے متعلق استفسار کرنا چاہتا ہوں جسکی مندرجہ ذیل وضاحت اور تفصیلات سامنے آئیں۔ ان تفصیلات کے بعد شریعت کے حکم کی وضاحت فرما دیجئے۔ طلاق کے پس منظر اور وجوہات کو اگر ایک طرف رکھیں اور چند اصولی سوالات کو زیربحث لائیں تو مسئلہ کی مندرجہ ذیل شکل سامنے آتی ہے۔

۱۔ شوہر نے "طلاق ہے" کا لفظ تین یا چار بار دہرایا لیکن حلفاً کہتا ہے کہ نیت میں ایک یا تین کی تعیین شامل نہیں تھی۔

۲۔ بیوی حلفاً کہتی ہے کہ "میں نے اپنے کانوں سے طلاق کا لفظ ایک مرتبہ بھی نہیں سنا کیوں کہ میں فوراً ڈر کے کمرے سے بھاگ گئی تھی"۔ بعد میں دوسروں کے بتانے پر پتا چلا کہ شوہر نے میری طرف اشارہ کر کے "طلاق ہے" کا لفظ چار مرتبہ کہا تھا۔

۳۔ شوہر طلاق کے مسائل سے اس حد تک لاعلم تھا کہ اسے نہیں معلوم تھا کہ رجعی، بائن اور مغلظہ کا کیا فرق ہوتا ہے۔

آپ سے گذارش ہے کہ مندرجہ ذیل امور میں رہنمائی فرمائیں۔

۱۔ کیا یہ الفاظ "طلاق ہے" بغیر نام لیکر تعین کیے، فقط اشارے کر کے کہنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ جبکہ بیوی بھی طلاق کے الفاظ خود نہ سنے؟

۲۔ اگر لفظ طلاق کے ساتھ عدد کی صراحت موجود نہ ہو اور شوہر کی نیت میں بھی عدد کی تعین موجود نہ ہو فقط طلاق دینا مقصود ہو، تب دیانتاً ایک طلاق ہی شمار ہو گی یا تین طلاق کا حکم لاگو ہو گا۔

۳۔ اور اگر دیانتاً ایک طلاق ہو گی تو کیا میاں بیوی دیانت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے رجوع کر سکتے ہیں یا نہیں ۔

۴۔ مذکورہ بالا صورت میں قضاء کا حکم کیا ہے۔ اگر قضاء ً تین طلاق واقع ہوں گی تو "المراۃ کالقاضی" کے اصول کے پیش نظر کیا عورت قضاء ً تین طلاق ہی کے حکم پر عمل کی پابند ہو گی یا اس صورت میں بھی عورت کیلئے دیانت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے رجوع کی گنجائش موجود ہے۔ جیسا کہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اور بعض دیگر علماء نے اس صورت میں بھی دیانت کے حکم پر عمل کی مشروط گنجائش دی ہے۔

۵۔ براہ کرم یہ بھی بتا دیجیے کہ، "المراۃ کالقاضی" کا تعلق صرف اس صورت سے ہے جب عورت خود اپنے کانوں سے لفظ طلاق کا تکرار سنے یا پھر بصورت دیگر شوہر کے اقرار یا دیگر گواہان کے ذریعے بھی عورت تک شوہر کا لفظ طلاق کے تکرار والا بیان پہنچ جائے تو تب بھی یہ اصول لاگو ہو گا۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں جب شوہر نے بیوی کی طرف اشارہ کر کے یہ الفاظ "طلاق ہے" تین سے چار مرتبہ کہے  اور شوہر نے یہ الفاظ طلا ق دینے کی نیت سے کہے ، شوہر نے  نہ تاکید کی نیت کی نہ عدد کی نیت کی تو بیوی پر قضاء و دیانۃ تینوں  طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ  کے ساتھ حرام ہوگئی ہے۔عدت گزارنے کے بعد مذکورہ عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

اب نمبر وار جوابات مذکور ہیں:

۱) صورت مسئولہ میں جب بیوی کے ساتھ ہی مکالمہ چل رہا تھا اور بیوی کی نیت سے بیوی کی طرف اشارہ کر کے شوہر نے یہ الفاظ کہے تو بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی ۔ مذکورہ صورت میں جب بیوی مراد ہونے پرقرائن موجود ہیں تو بیوی کی طرف صراحۃ نسبت ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ بیوی کا الفاظ سننا ضروری ہے۔

۲) شوہر نے جب یہ الفاظ متعدد مربتہ کہے اور نہ تاکید کی نیت کی اور نہ عدد کی نیت کی، شوہر کی نیت صرف طلاق دینے کی تھی تو الفاظ کے تعدد کا اعتبار کرتے ہوئے دیانۃ اور قضاء تینوں طلاقیں واقع ہوں گی۔

۳،۴،۵) جزء نمبر ۲ میں جیسے ذکر کردیا گیا کہ مذکورہ صورت میں قضاء و دیانۃ ہر اعتبار سے تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں لہذا ان سوالات کے جوابات کی کوئی جاجت نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها»

قوله لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. ...... ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اهـ وما في التحفة لا يخالف ما قبله لأن المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبا لا يقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلا يخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه."

(کتاب الطلاق باب صریح الطلاق ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۴۸،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين

(قوله وإن نوى التأكيد دين) أي ووقع الكل قضاء، وكذا إذا طلق أشباه: أي بأن لم ينو استئنافا ولا تأكيدا لأن الأصل عدم التأكيد."

(کتاب الطلاق ,باب صریح الطلاق ج نمبر ۳ ص نمبر۲۹۳،ایچ ایم سعید)

الأشباه والنظائر  میں ہے:

"فَإِذَا دَارَ اللَّفْظُ بَيْنَهُمَا تَعَيَّنَ الْحَمْلُ عَلَى التَّأْسِيسِ

وَلِذَا قَالَ أَصْحَابُنَا رَحِمَهُمُ اللَّهُ: لَوْ قَالَ لِزَوْجَتِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ طَالِقٌ طَالِقٌ طَلُقَتْ ثَلَاثًا، فَإِنْ قَالَ: أَرَدْتُ بِهِ التَّأْكِيدَ صُدِّقَ دِيَانَةً لَا قَضَاءً."

(فن اول قاعدہ تاسعہ ص نمبر ۱۲۶،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100797

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں