بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی شرم گاہ میں انگلی ڈال کر کھیلنے سے میاں بیوی کے غسل کا حکم


سوال

اگر شوہر اپنی بیوی کی شرم گاہ میں انگلی سے کھیلے اور پستان کو بھی ہاتھ لگائے اور چومے چاہے انزال ہو یا نا ہو، کیا دونوں پر غسل واجب ؟

جواب

بیوی کی  شرم گاہ  میں انگلی ڈالنے سے  اگر بیوی کو انزال ہوجائے تو عورت پر بالاتفاق غسل واجب ہوگا اور اگر  انزال نہیں ہوا،   صرف شہوت ہوئی تو بعض فقہاء کے نزدیک   اس صورت میں بھی  اس پر غسل واجب ہوگا، اور اسی میں احتیاط ہے، اور اگر اس عمل سے  نہ انزال ہوا اور نہ شہوت آئی  تو پھر بالاتفاق  غسل واجب نہیں ہوگا۔

باقی   مرد  پر صرف اس صورت میں غسل واجب ہوگا کہ اس عمل سے مرد کو انزال ہوجائے ، اگر مرد کو انزال نہیں ہوا تو اس عمل کی وجہ سے اس پر غسل واجب نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"لا عند ( إدخال أصبع ونحوه ) كذَكر غير آدمي وذكر خنثى وميت وصبي لا يشتهي، وما يصنع من نحو خشب ( في الدبر أو القبل ) على المختار.

"قوله: ( على المختار )، قال في التجنيس: رجل أدخل أصبعه في دبره وهو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء، والمختار: أنه لا يجب الغسل ولا القضاء ؛ لأن الأصبع ليس آلة للجماع ؛ فصار بمنزلة الخشبة، ذكره في الصوم. وقيد بالدبر ؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع ؛ لأن الشهوة فيهن غالبة فيقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمها.نوح أفندي.

أقول: آخر عبارة التجنيس عند قوله: بمنزلة الخشبة، وقد راجعتها منه، فرأيتها كذلك، فقوله: وقيد الخ من كلام نوح أفندي، وقوله: لأن المختار وجوب الغسل الخ بحث منه سبقه إليه شارح المنية حيث قال: والأولى أن يجب في القبل الخ، وقد نبه في الإمداد أيضًا على أنه بحث من شارح المنية فافهم."

( كتاب الطهارة، قبيل مطلب في رطوبة الفرج ، ج:1، ص:166،ط. سعيد، كراتشي)

درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"(ولا) عند (إدخال أصبع، ونحوه في الدبر ووطء بهيمة بلا إنزال) لقلة الرغبة كما مر."

(كتاب الطهارة، موجبات الغسل ، ج:1، ص:19،ط. دار إحياء الكتب العربية) 

فقط، والله اعلم


فتوی نمبر : 144507101635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں