بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی ماں کا بیوی کو شوہر کے پاس نہ جانے دینے حکم


سوال

میری ازدواجی زندگی بالکل برباد ہو کر رہ گئی ہے، جس کی اصل وجہ میری ساس ہیں، میری ساس میرے ساتھ رہتی ہیں، ان کی عادت ہے کہ وہ کبھی بھی میری زوجہ محترمہ کو میرے پاس نہیں بیٹھنے دیتیں، جب بھی میں ان کو اپنے پاس بلاتا ہوں، تو وہ کسی نہ کسی بہانے زوجہ کو اپنے پاس بلا لیتی ہیں، سارا دن جب شام کو میں تھکا ہارا ڈیوٹی سے گھر آتا ہوں تو زوجہ محترمہ میرے پاس بیٹھی ہوتی ہیں تب بھی ساس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنے پاس بہانے سے بلا لیتی ہیں، میں ساس کی بہت عزت کرتا ہوں، لیکن وہ بلا وجہ تنگ کرتی ہیں، کمرے میں بغیر دستک دئیے اندر آ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ہم اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے، سمجھ دار ہیں، لیکن  ان کی یہ عادت ہے۔ اپنے جواب سے مجھے آگاہ کریں۔

جواب

واضح رہے مسلمان پر اللہ تعالی کا حق سب سے زیادہ  ہے، اس کے بعد اس کے  والدین کا حق  ہے  اور  عورت  کی  شادی ہوجانے کے بعد پھر  شوہر کا حق سب سے زیادہ ہے، اسی  واسطے  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو بیوی کو کہتا ہے شوہر کو سجدہ کرے " چوں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو شوہر  کے سامنے  سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی،لیکن اس سے معلوم ہوا کہ بیوی پر شوہر کی اطاعت لازم ہے۔

لہذا سائل کی بیوی پر لازم ہے کہ موقع محل کی مناسبت سے والدہ کی عزت و احترام کے ساتھ شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری کو سب پر مقدم رکھے،  اس لیے کہ شوہر کا حق سب سے زیادہ ہے، اور سائل پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ایک ایسا کمرہ دے   جس میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو،اور وہ اس میں بلا تکلف  رہ سکے ،اور جس گھر میں لوگ رہتے ہوں، اس گھر میں بلااجازت بغیر دستک دیے داخل ہونا بھی  شرعاً  جائز نہیں ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائل کی  ساس کا دستک اور اطلاع دیے بغیر بلا اجازت سائل کے  کمرہ میں داخل ہو نا  شرعاً  جائز نہیں ہے۔

قر آن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ*فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ(النور:27/28)

ترجمہ: "اے ایمان والو تم اپنے (خاص رہنے کے) گھر کے سوا دوسرے گھروں میں مت داخل ہو جب تک کہ (ان سے) اجازت حاصل نہ کرلو اور (اجازت لینے کے قبل) ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو (ف ١) یہی تمہارے لیے بہتر ہے (یہ بات تم کو اس لیے بتلائی ہے) تاکہ تم خیال رکھو (اور اس پر عمل کرو)۔

پھر اگر گھروں میں تم کو کوئی (آدمی) نہ معلوم ہو تو (بھی) ان گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ تم کو (مختار اذن کی جانب سے) اجازت نہ دی جائے (ف ٢) اور اگر تم سے (اجازت لینے کے وقت) یہ کہہ دیا جائے کہ (اس وقت) لوٹ جاؤ تو تم لوٹ آیا کرو ۔ یہی بات تمہارے لیے بہتر ہے اور الله تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی خبر ہے (اگر خلاف کرو گے سزا کے مستحق ہو گے)۔" (بیان القرآن)

تفسیر بیان القرآن میں ہے:

"یہ مسئلہ استیذان کا مردانہ اور زنانہ سب گھروں کے لئے ہے ، اور استیذان واجب ہے ، اور تقدیم سلام سنت ہے ، اور ہر چند کہ یہاں خطاب مردوں کو ہے مگر عورتوں کا حکم بھی یہی ہے مردانہ میں بھی اور زنانہ میں بھی۔"

تفسير القرطبي میں ہے:

"يا أيها الذين آمنوا ‌لا ‌تدخلوا ‌بيوتا غير بيوتكم حتى تستأنسوا وتسلموا، فإن أذن لكم فادخلوا وإلا فارجعوا، كما فعل عليه السلام مع سعد، وأبو موسى مع عمر رضي الله عنهما.

فإن لم تجدوا فيها أحدا يأذن لكم فلا تدخلوها حتى تجدوا إذنا.

وأسند الطبري عن قتادة قال: قال رجل من المهاجرين: لقد طلبت عمري [كله «1»] هذه الآية فما أدركتها أن أستأذن على بعض إخواني فيقول لي ارجع فأرجع وأنا مغتبط، لقوله تعالى:" هو أزكى لكم".

الثانية- سواء كان الباب مغلقا أو مفتوحا، لأن الشرع قد أغلقه بالتحريم للدخول حتى يفتحه الإذن من ربه، بل يجب عليه أن يأتي الباب ويحاول الإذن على صفة لا يطلع منه على البيت لا في إقباله ولا في انقلابه.

فقد روى علماؤنا عن عمر بن الخطاب أنه قال: (من ملأ عينيه من قاعة بيت فقد فسق.)

وروي الصحيح عن سهل بن سعد أن رجلا اطلع في جحر في باب رسول الله صلى الله عليه وسلم ومع رسول الله صلى الله عليه وسلم مدرى «2» يرجل به رأسه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لو أعلم أنك تنظر لطعنت به في عينك إنما جعل الله الإذن من أجل البصر).

وروي عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (لو أن رجلا اطلع عليك بغير إذن فحذفته «3» بحصاة ففقأت عينه ما كان عليك من جناح).

الثالثة- إذا ثبت أن الإذن شرط في دخوله المنزل فإنه يجوزمن الصغير والكبير.

وقد كان أنس بن مالك دون البلوغ يستأذن على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكذلك الصحابة مع أبنائهم وغلمانهم رضي الله عنهم. وسيأتي لهذا مزيد بيان في آخر السورة إن شاء الله تعالى.

الرابعة- قوله تعالى: (والله بما تعملون عليم) توعد لأهل التجسس على البيوت وطلب الدخول على غفلة للمعاصي والنظر إلى ما لا يحل ولا يجوز، ولغيرهم ممن يقع في محظور."

‌‌(سورة النور (24): آية 28، ج:12،ص: 220، ط:دار الكتب المصرية - القاهرة)

فیض القدیر میں ہے:

"(أعظم الناس حقًّا على المرأة زوجها) حتى لو كان به قرحة فلحستها ما قامت بحقه ولو أمر أحد أن يسجد لأحد لأمرت بالسجود له فيجب أن لاتخونه في نفسها ومالها وأن لاتمنعه نفسها وإن كانت على ظهر قتب وأن لاتخرج إلا بإذنه ولو لجنازة أبويها  ."

(‌‌حرف الهمزة، ج:2، ص:5، الرقم:1186، ط:المكتبة التجارية الكبرى مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں