بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی حق تلفی میں والدہ کی ناراضی معتبر نہیں ہے


سوال

میں لاہور میں جاب کرتا ہوں اور میں نوشہرہ سے ہوں ، میری بیوی اور دو بچے نوشہرہ میں ہوتے ہیں، گھر پر میری والدہ اور چھوٹا بھائی ہوتا ہے، میرے والد صاحب وفات پاگئے ہیں، ہماری شادی کو چار سال ہوگئے ہیں، میری بیوی پچھلے ایک سال سے کہہ رہی ہے کہ مجھے اپنے ساتھ  لاہور لے جاؤ، میری اتنی تنخواہ ہے کہ جس میں آسانی سے میں اپنے گھر والوں کو رکھ سکتا ہوں،لیکن میری والدہ آنے کے لیے تیار نہیں ہے فی الحال،بھائیوں کی شادی نہیں ہورہی، سارے بھائی کام کرتے ہیں، میری کوشش ہیں کہ والدہ میرے ساتھ آجائیں یا پھر بھائیوں کی شادی ہو جائے تو پھر میں اپنی بیوی بچوں کو لے آؤں، ایسے حالات میں میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ مجھے خود بھی بیوی کی ضرورت ہے،بیوی بھی کہتی ہے کہ  مجھے میرا حق نہیں دے رہے، میں بہت زیادہ پریشان ہوں، میں کیا کروں؟ گھر والوں کو لاؤں تو والدہ نہیں تیار ہورہی اور نہ لاؤں تو بیوی ناراض ہوگی، مجھے بھی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے، راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے والدین اور بیوی ،بچوں میں سے ہر ایک کے حقوق مقرر کر دیے ہیں، دونوں میں سے کسی بھی ایک کی حق تلفی کرناجائز نہیں ۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہے کہ وہ اپنی اور اپنی اہلیہ کی مجبوری کو سامنے رکھ کر اپنی والدہ کو اپنے مسئلہ کے متعلق آگاہ کرےاور یہ سمجھائے کہ بیوی کو دور رکھنے کی وجہ سے بیوی کی حق تلفی کے ساتھ ساتھ گناہ میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہے، اگر سائل کی والد ہ سائل کے ساتھ لاہور جانے پر راضی نہ ہو،تو سائل کو چاہیے کہ وہ بیوی کو ساتھ لے جاکر اپنی والدہ کے خدمت کےلیے کسی خادمہ کا انتظام کرلے، اس صورت میں اگر والدہ سائل سے ناراض ہوجائے تو سائل گناہ گار نہیں ہوگا، ممکن ہوسکے تو حکمت وبصیرت کے ساتھ خاندان کے کسی بڑے کے ذریعے والدہ کو ایسے طریقے سے سمجھانے کا انتظام کیا جائے جس سے ان کی دل آزاری نہ ہو اور مسئلہ بھی حل ہوجائے۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ."(النساء: 19)

"ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کرو، اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

 حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي."

(مشکاة المصابیح، باب عشرة النساء،2/282 ، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مؤمنین میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔"

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي."

(مشکاة المصابیح، باب عشرة النساء2/281،، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فر مایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں"۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"المعاشرة بالمعروف من كف الأذى وإيفاء الحقوق وحسن المعاملة: وهو أمر مندوب إليه، لقوله تعالى: "وعاشروهن بالمعروف "ولقوله صلّى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي" وقوله:"استوصوا بالنساء خيراً"والمرأة أيضاً مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان."

( البَاب الأوَّل: الزّواج وآثاره، 9 /6598 -6599، ط: دار الفكر)

تفسیر ِمظہری میں ہے:

"(مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا امرا بترك فريضة او إتيان مكروه تحريما لان ترك الامتثال لامر الله والامتثال لامر غيره اشراك معنى ولما روينا من قوله عليه السّلام لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق- ويجب إطاعتهما إذا امرا بشئ مباح لا يمنعه العقل والشرع."

(سورۃ لقمان،ج7،ص256،ط؛مکتبۃ الرشدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں