مجھے معلوم کرنا تھا کہ اگر کسی لڑکی پر کوئی اثرات وغیرہ ہوں اور اس کے والدین نے یہ بات نہ بتائی ہو، رشتے کے وقت اور اب لڑکے کو شدید پریشانی ہورہی ہو جب کہ لڑکے نے کافی مہینے برداشت کیا کہ لڑکی کی زندگی خراب نہ ہو اور کسی کو نہ بتا یا ہو اور ازدواجی زندگی پربھی کافی فرق پڑرہا ہو تو اب لڑکا کیا کرے جب کہ لڑکی کے والدین اب بھی سب جانتے ہوئے نظر انداز کررہے ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر اہلیہ بیمار ہیں تو اپنی حیثیت کے مطابق کسی اچھے معالج سے ان کا علاج کرائیں، لازمی نہیں ہے کہ اثرات ہی ہوں، کسی اچھے دماغی ڈاکٹر ، ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں، دعا اور صدقہ وغیرہ کا اہتمام بھی کریں۔ صبح و شام اول و آخر درود شریف سات سات مرتبہ اور درمیان میں سورۂ فاتحہ، آیۃ الکرسی، سورۂ الم نشرح اور چاروں قل سات سات مرتبہ پڑھ کر دونوں ہاتھوں میں پھونک کر پورے جسم پر پھیرلیں۔ نیز قریبی کسی مستند متبعِ شریعت عالم سے براہِ راست مل کر مشورہ بھی کیجیے۔
اگر بیوی کی بیماری اس نوعیت کی ہو کہ شوہر حقوقِ زوجیت ادا ہی نہیں کرسکتا اور ہر طرح کے علاج کے بعد بھی کوئی افاقہ نہ ہو اور دوسری شادی کی استطاعت ہو تو سائل دوسری شادی کرلے، اگر بیک وقت دو بیویوں کو رکھنے کی استعداد نہ ہوتو پہلی بیوی کو علیحدہ کرسکتا ہے۔
اس میں اپنے گھر والوں نیز اعزہ و اقرباء ے مشورہ کرکے کوئی مناسب حل تلاش کریں، بسااوقات طلاق دے دینے کی صورت میں موجودہ پریشانیوں سے زیادہ بھاری پریشانیاں کھڑی ہوجاتی ہیں کہ جن سے چھٹکارہ بھی آسان نہیں رہتا ، اگر طلاق دینا ہی طے ہوجائے تو صرف ایک طلاق دیں، تین طلاقیں دینے کی ضرورت نہیں ہے، عدت (تین ماہواریاں، اگر بیوی حاملہ نہ ہو) گزرنے کے بعد بیوی کہیں اور نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107201091
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن