بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی بیماری کی وجہ سے رخصتی سے پہلے طلاق دینا


سوال

 میرا نکاح ٩ ستمبر ٢٠٢٢ کو کراچی میں مسجد میں ہوا ،رخصتی ابھی نہیں ہوئی، میں اصل میں آئرلینڈ میں مقیم ہوں، کچھ عرصہ میں اپنی بیوی کےکاغذات اپلائی کرنے ہیں، لیکن کچھ عرصہ سے میری بیوی کی طبیعت بہت ہی زیادہ خراب چل رہی ہے، آغاخان ہسپتال سے مکمل علاج بھی کروا لیا، لیکن ان کے بقول ہمیں کچھ نہیں پتہ، رپورٹس تمام کلیئر ہیں، اس کے بعد بقول میرے سسر کے  انہوں نے بنوری ٹاون سے بھی روحانی علاج کراویا، لیکن اب بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا، وہ مسلسل بیمار رہتی ہے، چلنے میں بہت پریشانی ہے ،اس سے صحیح سے چلا نہیں جاتا، کبھی کوئی بیماری ہوتی ہے تو کبھی کوئی بیماری، یہاں آئرلینڈ میں علاج کروانا بہت مشکل ہے اور مالی وسائل بھی بہت لگ جاتے ہیں۔ کچھ دن پہلے میرے ساس اور سسر گھر آئے۔ نکاح سے پہلے کا تو مجھے کچھ علم نہیں ،لیکن  اب انہوں نے یہی کہا ہے کہ آپ جو فیصلہ کرنا چاہیں کر لیں،کیوں کہ یہی حقیقت ہے اور آپ کے لیے وہاں مسائل نہ ہوں، اس لیے یہی سچ ہے، اب فیصلہ آپ لوگوں کا ہے۔

نکاح ایک مقدس رشتہ ہے اور حلال کاموں میں اللہ کو جو چیز نا پسند ہے وہ طلاق ہے، لیکن مجبوری یہی ہے کہ نہ ہی ان کے گھر والے کوئی مناسب جواب دے رہے ہیں اور ہم بھی غافل ہیں سچائی سے، آئرلینڈ میں میرے لیے بہت سے مسائل ہو جائیں گے، میں یہاں علاج اور وقت دونوں نہیں دے پاؤں گا، جب کہ  علاج بھی  اس بیماری کا کر سکتے ہیں، جس کا آپ کو اندازہ ہو، لیکن جس چیز کا علم ہی نہیں ہو تو آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ برائے مہربانی اس معاملے میں میری راہ نمائی فرمائیں۔ 

جواب

واضح رہے کہ بیماری اللہ کی طرف سے آتی ہے، اور اللہ ہی کے حکم سے اس سے شفاء بھی ملتی ہے، لہٰذا کسی بیماری  سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ،بلکہ اللہ تعالیٰ سے امید رکھنی چاہیے کہ جلد اس سے شفایابی حاصل ہوگی،نیز بیماری سے شفاء حاصل کرنے کے لیے گناہوں سے بچتے ہوئےدعا اور  صدقہ  کا اہتمام اور  ساتھ ساتھ حسب قدرت اسباب بھی اختیار کر لینے چاہیے،اگر طبی علاج کے ساتھ ساتھ  روحانی علاج بھی کرا  سکتے ہیں تو بہتر ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"(2204) حدثنا ‌هارون بن معروف ‌وأبو الطاهر ‌وأحمد بن عيسى قالوا: حدثنا ‌ابن وهب ، أخبرني ‌عمرو (وهو ابن الحارث)، عن ‌عبد ربه بن سعيد ، عن ‌أبي الزبير ، عن ‌جابر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: « لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برأ بإذن الله عز وجل ."

(صحيح مسلم، ‌‌كتاب السلام، باب لكل داء دواء،7/ 21، ط: دار الطباعة العامرة - التركية)

ترجمہ:"آپﷺ نےفرمایا کہ ہر بیماری کی دوا ہے، جب بیماری کو اس کی اصل دوا میسر ہوجائے تو انسان اللہ کے حکم سے شفایاب ہوجاتا ہے۔"

 ایک اور روایت میں ہے کہ:

"5354 - حدثنا محمد بن المثنى: حدثنا أبو أحمد الزبيري: حدثنا عمر بن سعيد بن أبي حسين قال: حدثني عطاء بن أبي رباح، عن أبي هريرة رضي الله عنه،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء)."

ترجمہ:"آپﷺ نے فرمایا:اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی شفا نازل نہ کی ہو۔"

(صحيح البخارى،كتاب الطب، باب ماأنزل الله داء إلا أنزل له شفاء،2 /367، رقم الحديث:5678، ط: رحمانية)

نیز نکاح ہونے کے بعد حتی الامکان رخصتی میں بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ میں بالغ ہونے کے بعد جلد نکاح کرنے کے جو مقاصد ہیں (مثلاً عفت و پاک دامنی کا حصول) وہ رخصتی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں، البتہ کسی معقول عذر کی بنا  پراگر رخصتی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس میں شرعاً حرج نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں محض منکوحہ کی بیماری کی وجہ سے سائل کو اسے طلاق نہیں دینی چاہیے، بلکہ جلد رخصتی کر کے ان کے علاج کی کوشش کرتے رہیں، یا علاج مکمل کر کے رخصتی کرائیں جو آسان ہو اس کو اختیار کریں۔اور اللہ  تعالیٰ سے اچھی امید کے ساتھ مانگتے رہیں، ہاں اگر سائل کو یقین ہو کہ مذکورہ خاتون کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ نباہ ممکن نہیں  ہوگی تو ایک  طلاق دے سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

''وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً﴾ أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: ’’ أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق‘‘. قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ .''

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:228، ط: سعید)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144411101703

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں