بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی اصلاح کی صورتیں


سوال

میری بیوی سے جھگڑے ہوتے رہتے ہیں ،تو میں نے اپنی بیوی کو احساس دلانے کے لیے کہ شوہر کا ساتھ کیسا ہوتا ہے،ایک تحریر  اس کو دینا چاہتا ہوں ،ابھی میری بیوی میرے گھر پر ہے،میرا ارادہ یہ ہے کہ میں اپنی بیوی کو میکے چھوڑوں گا ،اور یہ تحریر دے دوں گا،تحریر یہ ہے کہ "تم اس وقت اپنی امی ابو کے گھر (میکے)میں  ہو،تم میری اجازت کے بغیر گھر پر نہیں آؤ گی ،اور اگر تم میری اجازت کے بغیر گھر پر آئی تو تمھیں ایک طلاق ہو گی "۔آیا یہ طریقہ میرا درست ہے کہ نہیں اور اگر نہیں ہے تو درست طریقہ بھی بتا دیں ۔

وضاحت :یہ تحریر سائل کے مطابق میں نے  مشورہ کرنے کے لیے لکھی ہے ،اس سے میرا ارادہ طلاق کا نہیں ہے۔

جواب

1)شریعت نے بیوی کی اصلاح کا جو طریقہ بتایا اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر بیوی نافرمانی کر رہی ہے تو اس  صورت میں اولاً شوہر کو چاہیے کہ  اپنی بیوی کو زبانی وعظ و نصیحت کر ے ،اگر اس سے باز نہ آئے تو اپنا بستر  بیوی سے علیحدہ کرلے(یعنی بیوی کے ساتھ نہ سوئے بلکہ الگ کمرے میں سوئے ) ،  اگر اس سے بھی باز نہ آئے تو تادیب کے لیے ایسا  مارے جس سے  نشان نہ پڑے،اگر اس سے بھی معاملہ حل نہ ہو  تو   شوہر   اور بیوی کے خاندان کے معزز افراد مل کر دونوں کی باتیں سن کر اگر صلح کرانا ممکن ہے تو صلح کرادیں، اور اگر صلح کرانے کی کوئی صورت نہیں اور دونوں ایک دوسرے سے الگ ہونا چاہتے ہیں تو شوہر سے کہے کہ   پاکی کے اَیَّام میں جس میں میاں بیوی کاتعلق قائم نہ ہواہو ،  ایک طلاق ِ رجعی دے دے ،اگر عدت کے اندر بیوی  اپنا رویہ درست کر لے تو شوہر رجوع کر لے ورنہ رجوع نہ کرے ،عدت گزرنے کے بعد نکاح ختم ہو جائے گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و في القھستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بین الزوجین اختلاف أن یجتمع أهلهما لیصلحوا بینهما، فإن لم یصطلحا جاز الطلاق و الخلع. و هذا هو الحکم المذکور في الآیة."

(کتاب الطلاق،باب الخلع، جلد 3،  ص:441،ط:سعید)

  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَھْلِهٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَھْلِھَا ۚ اِنْ يُّرِيْدَآ اِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِــيْمًا خَبِيْرًا

(النساء،آیہ:35)

ترجمہ:

اور اگر تم (اوپر والوں) کو ان دونوں (میاں بیوی) میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہو عورت کے خاندان سے بھیجو اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہو تو اللہ تعالیٰ ان(میاں بی بی) میں اتفاق فرماویں گےبلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں۔(بیان القرآن)

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا  ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا"

(نساء،آیہ :34)

ترجمہ:

اور جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بددماغی کا احتمال ہو تو ان کو زبانی نصیحت کرو اور ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو اور ان کو مارو پھر وہ تمہاری اطاعت کرنا شروع کر دیں تو ان پر بہانہ مت ڈھونڈو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے رفعت اور عظمت والے  ہیں ۔(بیان القرآن)

 لہذا سائل طلاق دینے میں جلدی نہ کرے ،بلکہ مذکورہ طریقہ کے مطابق اصلاح کی کوشش کرے ۔

2)صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل نے  مذکورہ تحریر مشورہ   طلب کرنے اور استفتاء جمع کرا کر مذکورہ مسئلے میں صحیح راہ نمائی حاصل کرنے کی  غرض سے لکھی ہے تو  بیوی  پر شوہر کی  اجازت کے بغیر گھر آنے سے طلاق معلق نہیں ہوگی،لیکن اگر لکھتے وقت  طلاق کو معلق کرنے  کی نیت تھی تو پھر  مذکورہ تحریر سے طلاق معلق ہو گئی ہے ؛لہذا اس صورت میں اگر سائل کی بیوی اس کے بعد  میکے جائے اور سائل کی اجازت سے آجائے تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی  اور تعلیق بھی ختم ہو جائے گی،پھر آئندہ آنے جانے سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ، چاہے اجازت سے ہو یا بغیر اجازت کے ہو ،البتہ اگر سائل کی بیوی میکے جائے  اور سائل کی اجازت کے بغیر واپس آجائے   تو اس سے ایک طلاق واقع ہو جائے گی،اگر چہ اس تحریر کا علم بیوی کو نہ ہو ،اور شرط پوری ہو جانے کی وجہ سے تعلیق ختم ہوجائے گی ،اور پھر آئندہ سائل کی بیوی کا میکے جانے کے بعد سائل کی  اجازت کے بغیر آنے سے بھی  کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ۔  

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق۔"

(الفصل الثالث فی تعليق الطلاق بكلمۃ إن وإذا وغيرهما : 1 / 420 ، ط : دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفيها) كلها (تنحل) أي تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما فإنه ينحل بعد الثلاث)"

(کتاب الطلاق ،باب التعلیق ،ج:3،ص:352،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله كما أفاده في الفتح، وحققه في النهر، احترازا عما لو كرر مسائل الطلاق بحضرتها، أو كتب ناقلا من كتاب امرأتي طالق مع التلفظ، أو حكى يمين غيره فإنه لا يقع أصلا ما لم يقصد زوجته، وعما لو لقنته لفظ الطلاق فتلفظ به غير عالم بمعناه فلا يقع أصلا على ما أفتى به مشايخ أوزجند صيانة عن التلبيس وغيرهم من الوقوع قضاء فقط"

(کتاب الطلاق ،باب صریح الطلاق ،ج:3،ص:250،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100339

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں