بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے لیے سسرال میں مکمل نماز پڑھنے کا حکم


سوال

 میری بیوی ضلع بھکر سے ہے اور میں لاہور سے ہوں، میری بیوی کی اپنے میکہ میں جاب ہے، اس لیے ابھی وہ وہاں ہی قیام پذیر ہے، میرے پاس لاہور چھٹیوں میں یا کبھی ویسے آ جاتی ہے، لیکن ابھی تک 15 دن کے لیے نہیں رکی۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی نماز قصر ہو گی یا مکمل ہو گی؟

جواب

 صورتِ مسؤلہ میں  شرعا یہ مناسب نہیں ہے کہ لڑکی ملازمت کی وجہ سے شوہر سے دور رہے ، زوجین کے باہمی تعلق اور اچھی ازدواجی زندگی کے لیے دونوں کا ساتھ رہنا ضروری ہے ،بہر حال صورتِ مسئولہ میں چوں کہ عورت کی شادی  اور رخصتی  ہو چکی ہے،لہذا بیوی کے شوہر  کا  گھر اس کا اپنا وطن اصلی ہے، خواہ وہ ابھی تک وہاں 15 دن کے لیے رکی ہو یا نہ رکی ہو، اس لیے کہ شوہر کا گھر ہی اس کا گھر ہے،لہذا  وہاں پر مکمل نماز پڑھنی ہوگی۔

بدائع  الصنائع میں ہے:

وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لاتبقى وطناً له؛ لأنها إنما كانت وطناً بالأهل لا بالعقار 

(باب المسافر ج:۲، ص:۱۳۶ ط: سعید)

 بدائع الصنائع  میں ہے:

" ثم الوطن الأصلي يجوز أن يكون واحدًا أو أكثر من ذلك بأن كان له أهل ودار في بلدتين أو أكثر ولم يكن من نية أهله الخروج منها، وإن كان هو ينتقل من أهل إلى أهل في السنة، حتى أنه لو خرج مسافرا من بلدة فيها أهله ودخل في أي بلدة من البلاد التي فيها أهله فيصير مقيما من غير نية الإقامة."

( 1/ 103 :کتاب الصلاۃ، فصل بيان ما يصير المسافر به مقيمّا،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں