بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 جُمادى الأولى 1446ھ 05 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے زیورات کی زکات کس پر ہے؟ زیورات کی زکات کس حساب سے واجب ہوگی؟


سوال

1.میری بیوی کو شادی میں اس کی ماں کی طرف سے اور ہماری طرف سے جو زیورات دیے گئے، اس کی زکات کس کے ذمہ ہے؟

تمام زیورات کی مالک میری بیوی ہے، اور اگر زکات میری بیوی کے ذمہ ہے تو کیا میں اس کی طرف سے زکات ادا کرسکتا ہوں؟ اس کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

2.تمام سونا زیورات کی شکل میں بنا ہوا ہے، کچا سونا نہیں ہے، اس کی زکات کس طرح نکالی جائے گی کیونکہ زیور میں کھوٹ اور موتی بھی ہوتے  ہیں، کیا زیورات کی زکات بھی کچے سونے کی طرح دینی ہوگی یعنی زیورات کا ٹوٹل وزن کرنے کے بعد دینی ہوگی؟

جواب

1.واضح رہے کہ اگر کسی کی ملکیت میں صرف سوناہو اس کے علاوہ کوئی نقد، چاندی یا مالِ تجارت نہ ہو تو زکات لازم ہونے کےلیےکم از کم  ساڑھے سات تولہ سونا ہونا ضروری ہے، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ نقدی،چاندی یا مالِ تجارت میں سے بھی کچھ ملکیت میں ہو تو ساڑھے سات تولہ کا اعتبار نہیں، بلکہ اگر ان مملوکہ اشیاء کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو سال گزرنے کے بعد زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی کو اس کی ماں کی طرف سے جو زیورات دیے گئے ہیں ان کی مالک آپ کی بیوی ہےاور آپ کی بیوی کو شادی میں جو زیورات آپ لوگوں کی طرف سے دیے گئے اگر وہ مہر یا گفٹ میں دیے گئے ہیں یا مالک بناکر دیے گئے ہیں تو ان چیزوں کی مالک بھی آپ کی بیوی ہے، ان کی زکات بھی بیوی پر لازم ہے، اگر شوہر بیوی کی اجازت سے زکات ادا کردے تو بیوی کی زکات ادا ہوجائے گی۔

اور جو زیورات آپ لوگوں نے استعمال یا عاریت کہہ کر دیے تھے ان زیورات کے مالک آپ ہیں بیوی نہیں، ان کی زکات ادا کرنا آپ پر لازم ہے، لہذا ملکیت متعین کرلی جائے۔ 

2.اگر کھوٹ مغلوب ہو سونا غالب ہو تو زیور سونے کے حکم میں ہوتاہے، اس کی زکات کا حساب لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ زیور میں جس کیریٹ کا سونا ہے،  بازار میں اس قسم  کے سونے کی جو قیمتِ  فروخت ہے وہ معلوم کرکے اس کا چالیسواں  حصہ ( ڈھائی فیصد) زکات میں دینا واجب ہوگا،  زیورات میں سے صرف سونے کی زکاۃ ادا کرنا ہوگی، موتی اور نگینے کا وزن اور قیمت اس میں شامل نہیں ہوگی،بشرطیکہ وہ تجارت کے لیے نہ ہو۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"(قال:) والحلي عندنا نصاب للزكاة سواء كان للرجال أو للنساء مصوغا صياغة تحل أو لا تحلوإن كان له عشرة مثاقيل ذهب ومائة درهم ضم أحدهما إلى الآخر في تكميل النصاب عندنا."

(كتاب الزكاۃ، باب زكاۃ المال، 2/ 257، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقيمة العرض للتجارة تضم إلى الثمنين؛لأن الكل للتجارة وضعا و جعلا و يضم الذهب إلى الفضة و عكسه بجامع الثمنية قيمة."

(كتاب الزكاۃ، باب زكاۃ المال، 2/ 203، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الدراهم إذا كانت مغشوشة فإن كان الغالب هو الفضة فهي كالدراهم الخالصة.

وإن غلب الغش فليس كالفضة كالستوقة فينظر إن كانت رائجة أو نوى التجارة اعتبرت قيمتها فإن بلغت نصابا من أدنى الدراهم التي تجب فيها الزكاة، وهي التي غلبت فضتها وجبت فيها الزكاة، وإلا فلا، وإن لم تكن أثمانا رائجة، ولا منوية للتجارة فلا زكاة فيها إلا أن يكون ما فيها من الفضة يبلغ مائتي درهم بأن كانت كثيرة وتتخلص من الغش فإن كان ما فيها لا يتخلص فلا شيء عليه كذا في كثير من الكتب وحكم الذهب ‌المغشوش كالفضة المغشوشة، ولو استويا ففيه اختلاف واختار في الخانية والخلاصة الوجوب احتياطا كذا في البحر الرائق."

(كتاب الزكاة، الباب الأول، الفصل الثاني، 1/ 179، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102765

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں