بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے ساتھ الگ گھر میں رہائش اختیار کرنے کا حکم


سوال

میری عمر سینتیس سال ہے اور میری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں، میں اور میری بیوی سب کا بہت خیال رکھتے ہیں، (ماں باپ بہن بھائی)سب کے گھر ملنے بھی جاتے ہیں، سب ہمارے گھر ملنے بھی آتے ہیں، لیکن میری امی کہتی ہیں کہ میرا بیٹا چلا گیا ہے، کسی کے سامنے نہیں بولتی، ہمیشہ اکیلے میں ایسی باتیں بولتی ہیں اور بھی کوئی بات بولنی ہوتی ہے،اکیلے میں بولتی ہیں، مجھے بہت دکھ ہوتا ہے کہ میں کیسے سمجھاؤں، میں ویسا ہوں جیسے پہلے تھا ،کبھی کہتی ہیں بہن کو فون کر کے دعوت دو ،بہنوں کا ارمان ہوتا ہے کہ بھائی بلائے، جب کہ ہم سب بہن بھائی ایک مہینہ میں ضرور ملتے ہیں، میں سب کچھ خاموشی سے سنتا ہوں ،سب کے سامنے کہتی ہیں کہ میری بہو بہت اچھی ہے، لیکن مجھ سے اس کی شکایت کرتی ہیں، میر ی بیوی بھی بولتی ہے مجھے پتہ ہے سب سامنے اچھے ہیں، لیکن دل میں سب کی نفرتیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میں والدین کی نافرمانی کرہارہوں؟

جواب

 واضح رہے کہ شادی شدہ شخص پر بیوی بچوں کے جداگانہ حقوق ہیں اور والدین کے مستقل حقوق ہیں، کسی ایک کی ادائیگی کی وجہ سے دوسرے کی حق تلفی درست نہیں ہے،    والدین کے حقوق (خدمت و راحت رسانی اور ادب و احترام) کی ادائیگی کی حتی الوسع کوشش کرتے رہنا چاہیے، اور بیوی اور اولاد کے حقوق  کی بھی۔

 شرعی اعتبار سے  شوہر   پر اپنی   بیوی کو ایسی  رہائش فراہم کرنا  ضروری ہے کہ جس میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو ،  جب کہ بیٹا ہونے کے اعتبار سے  اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا، ان کے ضرورت مند  ہونے کی صورت میں نان و نفقہ کا بندوبست کرنا  اور  ان کا ادب و احترام کرنا لازم ہے( البتہ والدین کے  مال دار  ہونے کی صورت میں ان کا نفقہ  لازم نہیں)   پس  اگر انسان ہمت کرے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگتا رہے تو دونوں (والدین اور بیوی بچوں) کے حقوق ادا کرنا آسان ہوجاتاہےلہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کو چاہیے کی آپ اپنی والدہ کو مطمئن کریں اوراپنی بیوی کو بھی راضی کریں اور اپنی والدہ کے اشکالات کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز."

(کتاب الطلاق , الباب السابع عشر فی النفقات جلد 1 ص: 556ط: دارالفکر)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"السكنى للزوجة على زوجها واجبة، وهذا الحكم متفق عليه بين الفقهاء؛ لأن الله تعالى جعل للمطلقة الرجعية السكنى على زوجها. قال تعالى: {أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} (١) فوجوب السكنى للتي هي في صلب النكاح أولى. ولأن الله تعالى أوجب المعاشرة بين الأزواج بالمعروف، قال تعالى: {وعاشروهن بالمعروف} (٢) ومن المعروف المأمور به أن يسكنها في مسكن تأمن فيه على نفسها ومالها، كما أن الزوجة لا تستغني عن المسكن؛ للاستتار عن العيون والاستمتاع وحفظ المتاع. فلذلك كانت السكنى حقا لها على زوجها، وهو حق ثابت بإجماع أهل العلم..........فالجمع بين الأبوين والزوجة في مسكن واحد لا يجوز (وكذا غيرهما من الأقارب) ولذلك يكون للزوجة الامتناع عن السكنى مع واحد منهما؛ لأن الانفراد بمسكن تأمن فيه على نفسها ومالها حقها، وليس لأحد جبرها على ذلك. وهذا مذهب جمهور الفقهاء من الحنفية والشافعية والحنابلة." 

(السکنی , الاحکام المتعلقة بالسکنی جلد 25 ص: 108 , 109 ط: وزارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیة ۔ الکویت)
فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410101956

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں