بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے نام فلیٹ خریدنے کا حکم


سوال

میں نے ایک فلیٹ بیوی کے نام یعنی اس کی نیت سے خریدااور اسی کے نام کاغذات بھی منتقل کروادیے،اور اس فلیٹ کے مکمل بننے کے بعد اس میں جانے سے پہلے میں نے بیوی سے کہا کہ یہ تمہاری ملکیت ،لیکن میں نے چابی وغیرہ نہیں دی تھی،پھر ہم اس فلیٹ میں رہنے کے لیے چلے گئے،کیا اب یہ فلیٹ بیوی کی ملکیت ہوئی ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بیوی کے نام پر خریدےگئے مذکورہ فلیٹ میں داخل ہوتے وقت شوہر کی جانب سے اسے آگاہ کرنا کہ یہ تمہاری ملکیت ہے، گفٹ کرنے کے لیے شرعا کافی نہیں  ہوگا، بلکہ بیوی کے قبضہ میں دینا بھی شرعا ضروری  ہوگا، تاہم  بیوی کا قبضہ تام ہونے کے لیے  چابی سپرد کرنا ضروری نہیں،  البتہ بیوی کا گھر میں پہلے  داخل ہونا ضروری  ہوگا،  لہذا  مذکورہ فلیٹ میں  اگر پہلے بیوی داخل ہوئی تھی،تو یہ اس کی جانب سے قبضہ شمار ہوجائے گا،اور شرعاً بیوی مذکورہ فلیٹ کی مالک قرار پائے گی،البتہ اگر پہلے شوہر داخل ہواہو،اس صورت میں بیوی کا قبضہ نہ پائے جانے کی وجہ سےمذکورہ فلیٹ پر تاحال سائل کی ملکیت رہے گی،اب اگر بیوی کو دینا مطلوب ہو،تو سائل فلیٹ  سے اپنا ضروری  سامان لے کر نکل جائے، اور  مذکورہ فلیٹ  تمام ساز و سامان کے ساتھ بیوی کو  دے دے، ،پھر اس کی اجازت سے مذکورہ فلیٹ میں رہائش اختیار کرلے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط:سعید)

وفیه ایضا:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة (وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لايكون هبةً."

(كتاب الهبة،ج:5،ص:689، ط:سعید)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

"وفي الفتاوى العتابية : ولو وهبه فارغًا وسلم مشغولًا لم يصح ولايصح قوله: أقبضها أو سلمت إليك إذا كان الواهب فيه أو أهله أو متاعه."

(فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،  نوع منہ،ج:14،ص:431، ط: زکریا، دیوبند، دہلی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولایتمّ حکم الھبة الّا مقبوضة و یستوی فیه الأجنبی و الولد اذا کان بالغا ،ھٰکذا فی محیط البرھانی."

( کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوزمن الھبة و فیما لا یجوز، ج:4،ص:377، ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604102470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں