بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے مطالبہ پر خلع دینے کی صورت میں مہر سے زیادہ کا مطالبہ کرنا


سوال

 اگر عورت اپنے خاوند سے خلع کا مطالبہ کرتی ہے،  جب کہ نکاح کے وقت بیوی نے خاوند سے مہر کی رقم اور ایک عدد پلاٹ و صول کر لیے ہوں،پھر طلاق کا مطالبہ کرے اس صورت میں خاوند اپنی بیوی سے مہر کی رقم اور ایک عدد پلاٹ کے علاوہ  کچھ مطالبہ کر کے اس کو طلاق دے، شرعا جائز ہے یا نہیں؟ میرے دو بچےہیں۔

ایک بچی جس کی عمر ۱۴ سال اور ایک بیٹا جس کی عمر ۸ سال ہے، وہ کس کے پاس رہنے کے مستحق ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بیوی کی طرف سے کوتاہی یا زیادتی ہو یا دونوں کی طرف سے ہو اور بیوی  خلع کا مطالبہ کرتی ہو تو اس صورت میں سائل کے لیے بیوی کو ادا کردہ مہر کی رقم اور پلاٹ یا اس کے علاوہ جو کچھ بیوی کو دیا اس کے عوض بیوی کو خلع دینا شرعا جائز ہے، البتہ مہر اور بیوی کو دی گئی مقدار سے زیادہ لینا خلاف اولی ہے۔ سائل کی ۱۴ سال کی بچی اور ۸ سال کا بچہ دونوں کی پرورش کا حق سائل کو ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره) تحريما (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح، وصحح الشمني كراهة الزيادة، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق»

(قوله: ولو منه نشوز أيضا) لأن قوله تعالى - {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229]- يدل على الإباحة إذا كان النشوز من الجانبين بعبارة النص، وإذا كان من جانبها فقط بدلالته بالأولى (قوله: وبه يحصل التوفيق) أي بين ما رجحه في الفتح من نفي كراهة أخذ الأكثر وهو رواية الجامع الصغير، وبين ما رجحه الشمني من إثباتها وهو رواية الأصل، فيحمل الأول على نفي التحريمية والثاني على إثبات التنزيهية، وهذا التوفيق مصرح به في الفتح، فإنه ذكر أن المسألة مختلفة بين الصحابة وذكر النصوص من الجانبين ثم حقق ثم قال: وعلى هذا يظهر كون رواية الجامع أوجه، نعم يكون أخذ الزيادة خلاف الأولى، والمنع محمول على الأولى. اهـ. ومشى عليه في البحر أيضا."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج نمبر۳ ، ص نمبر۴۴۵، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."

(کتاب الطلاق باب الحضانۃ ج نمبر ۳،  ص نمبر ۵۶۶،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605100671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں