بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے اسلام لانے کے بعد شوہر کا اسلام قبول کرنے کے بجائے طلاق دینا


سوال

کافر میاں بیوی تھے، بیوی مسلمان ہوگئی، بیوی نے شوہر کو مسلمان ہونے کا کہاشوہر نے بیوی کو طلاق دے دی۔اب اس عورت کی عدت کتنی ہے؟ اور یہ عدت کہاں گزارے؟

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی عورت مسلمان ہوجائے اور اس کا شوہر غیر مسلم ہو توعورت کے صرف اسلام لانے سے نکاح ختم نہیں ہوتا ،بلکہ عورت  پر  لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر پر اسلام پیش کرے ،یعنی وہ مسلمان ہوگئی ہے اور شوہر کو بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دے ،اگر شوہر اسلام قبول کرلیتا ہے تو دونوں کا نکاح برقراررہتا ہے  اور اگر شوہر اسلام قبول نہیں کرتا اور  انکار کردیتا ہے  تو پھر دونوں کا نکاح ختم ہوجاتاہے ،اگرچہ شوہر طلاق نہ دے  ،اس کے بعد عورت کو تین ماہواری عدت  گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے کی اجازت ہوتی ہے  ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب بیوی نے شوہر کو مسلمان ہونے کا کہا اور شوہر نے اسلام قبول کرنے کےبجائے طلاق دے دی، تو اس سے دونوں کا نکاح ختم ہوگیاہے، عورت عدت  گزار کردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔اور  عدت کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر عورت حاملہ ہے تو بچہ کی پیدائش تک عدت ہے، بچہ کی پیدائش ہوتے ہی  عدت ختم ہوجائے گی، اور اگر عورت    حاملہ نہ ہو  اور ماہواری آتی ہو تو پھر مکمل تین ماہواریاں عدت ہے،تیسری ماہواری کے بعد عدت ختم ہوجائے گی۔

اور اس صور ت میں عورت شوہر سے الگ گھر میں عدت گزارےگی۔

الدر المختار میں ہے:

"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل)... (والمجنون) إلا إذا علق عاقلا ثم جن فوجد الشرط، أو كان عنينا أو مجبوبا أو أسلمت وهو كافر وأبى أبواه الإسلام وقع الطلاق أشباه (والصبي)."

(شامي، ‌‌كتاب الطلاق، ج: 3، ص: 235۔243، ط: سعید)

الدر المختار میں ہے:

"(وإذا) (أسلم أحد الزوجين المجوسيين أو امرأة الكتابي عرض الإسلام على الآخر، فإن أسلم) فيها (وإلا) بأن أبى أو سكت (فرق بينهما."

(‌‌شامي، كتاب النكاح، ‌‌باب نكاح الكافر، ج: 3، ص: 189،188، ط: سعید)

ہدایہ میں ہے: 

"وإذا أسلمت المرأة وزوجها كافر عرض القاضي عليه الإسلام، فإن أسلم فهي امرأته، وإن أبى فرق بينهما، وكان ذلك طلاقا."

(كتاب النكاح، باب نكاح أهل الشرك،  ج: 2، ص: 506، سنِ طباعت: 2022، ط: بشري)

فتاوی  ہندیہ  میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء......والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر...وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي."

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر فی العدۃ، ج: 1، ص: 528،526، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں