بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے حکم پر ڈاکٹر اسقاطِ حمل کردے تو غرہ ڈاکٹر پر لازم ہوگا یا بیوی پر ؟


سوال

بیوی نے چار ماہ بعد شوہر سے چھپ کر ڈاکٹر سے بچہ گرایا، تواب غرہ تو واجب ہے ،لیکن کس پر، ڈاکٹر پر یا بیوی پر ؟عربی فتاوی میں تعارض معلوم  ہوتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں اسقاطِ حمل چار ماہ کے بعد   قتل کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے  ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ چار ماہ کے بعد بچہ کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے؛  اسی لیےچار ماہ کے بعد کسی بھی صورت میں اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے،پھر اگر بیو ی شوہر کی اجازت سے اسقاطِ حمل کرائے تو اس صورت میں کسی پر بھی دیت یعنی غرہ لازم نہیں ہوتا،البتہ میا ں بیوی دونوں گناہ گار ہوں گےاور اگر بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اسقاطِ حمل کرائے تو اس صورت میں بیوی کے عاقلہ پر شوہر کے لیے غرۃیعنی (ایک غلام کی قیمت  )یعنی  پانچ سو دراہم (131.25تولہ چاندی )یا اس کی قیمت ادا کرنالازم ہوگی اور اگر کوئی عورت کسی دوسری عورت یا ڈاکٹر کو حمل ساقط کرنے کا حکم کرے تو مامور ( جس کو حکم دیا جائے ) پر دیت لازم نہیں ہوگی ،بلکہ حکم کرنے والی پر دیت لازم ہوگی ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب بیوی نے شوہر کی اجازت کے بغیر اسقاطِ حمل کروایااور بیوی کے کہنے پر ڈاکٹر نے حمل ساقط کیا تو بیوی کے عاقلہ پر شوہر کے لیے ایک غرہ یعنی  ( ایک غلام کی قیمت) يعنی پانچ سو درہم (131.25 تولہ چاندی)یا اس کی قیمت لازم ہوگی نہ ڈاکٹر پر ۔ 

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"والمرأة إذا ضربت بطن نفسها، أو شربت دواء لتطرح الولد متعمدة، أو عالجت فرجها حتى سقط الولد ضمن عاقلتها الغرة إن فعلت بغير إذن الزوج، وإن فعلت بإذنه لا يجب شيء كذا في الكافي."

(كتاب الجنايات، الباب العاشر في الجنين، 35/6 ، ط: رشيدية)

وفيه أيضا:

" وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان. العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز."

(کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، 356/5، ط: رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وإن شربت دواء لتطرحه أو عالجت فرجها حتى أسقطته ضمن عاقلتها الغرة إن فعلت بلا إذن) ؛ لأنها ألقته متعدية فيجب عليها ضمانه وتتحمل عنها العاقلة لما بينا ولا ترث هي من الغرة شيئا؛ لأنها قاتلته بغير حق والقاتل لا يرث بخلاف ما إذا فعلت ذلك بإذن الزوج حيث لا تجب الغرة لعدم التعدي."

(كتاب الديات ،فصل في الجنين ، 391/8 ،ط:دار الكتاب الإسلامي )

فتاوی شامی میں ہے:

"(أسقطته ميتا) عمدا (بدواء أو فعل) كضربها بطنها (بلا إذن زوجها فإن أذن) أو لم يتعمد (لا) غرة لعدم التعدي، ولو أمرت امرأة ففعلت لا تضمن المأمورة.

(قوله ولو أمرت امرأة) أي أمرت الزوجة غيرها، والظاهر أن عدم الضمان بعد أن أذن لها زوجها في الإسقاط على ما يدل عليه سوق كلام صاحب الخلاصة، وإلا فمجرد أمر الأم لا يكون سببا لسقوط حق الأب وهو ظاهر اهـ واني، لكن ذكر عزمي أن نفي الضمان عن المأمورة لا يلزم منه نفيه عن الآمرة إذا لم يأذن لها زوجها، وقد اعترض الشرنبلالي هنا بنظير ما مر وعلمت ما فيه فتدبر."

(كتاب الديات، فصل في الجنين ،591/6،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100750

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں