بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے بھانجے کو گود لینا


سوال

ایک حادثے میں میرے ہم زلف  ،سالی اور ان کی بیٹی کا انتقال ہو گیا ،اب صرف ان کاایک 9 سالہ بیٹا زندہ ہے اور وہ زیرِعلاج ہے۔میں 10 سال سے بے اولا د ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس لڑکے کی پرورش اپنے ذمے لے لوں ،اس سلسلے میں نے محمد یوسف کے 5  چچا ،1 تایا اور دادی سے بھی بات کی وہ بھی اس بات پر راضی ہیں ،لہذا اس سلسلے میں میں مجھے شرعی راہ نمائی درکار ہے کہ:

1)کیا یہ لڑکا میری بیوی کے لیے محرم ہے ؟

2)کیا بچے کی پرورش / کفالت کے سلسلے میں مجھے کورٹ سے guardian certificate لینا ضروری ہوگا  یا آپ کی جانب سے مجھے کوئی ایسا مستند دستاویز فراہم کیا جا سکتا ہے جو کہ بوقت ضرورت بچے کے دنیاوی و دینی معاملات میں میرے کام آ سکے ؟

3)اس کے علاوہ بچے کی کفالت و پرورش کے حوالے سے کوئی ایسی شرعی بات جس کا مجھے علم ہونا چاہیے ضرور فراہم کریں۔

جواب

1)صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بچہ، جو  کہ سائل کے ہم زلف کا بیٹا ہے ،سائل کی بیوی کے  بھانجے  ہو نے کی حیثیت سے ان کا محرم ہے۔

2)ہمارے ادارے سے اس طرح کی کوئی سند جاری نہیں کی جاتی،لہذا کسی قانون دان سے اس کے متعلق قانونی راہ نمائی حاصل کر لیں ۔

3)شریعت کی روشنی میں بچے کو گود لینے کےمتعلق  چند بنیادی احکامات یہ ہیں :

  1. بچے کی ولدیت اس کے حقیقی والد ہی کی طرف منسوب کی جائےاور   حقیقی ولدیت ہی سے پکارا جائے گا۔
  2. بچے کے والدین کے ترکہ کو شرعی طریقے پر تقسیم کر کے  بچے کے حصے کے مال کی حفاظت کی جائے، اور بہتر یہ ہے کہ اس  کو کسی کاروبار میں لگا کر سرمایہ اور نفع محفوظ کیا جائے ۔
  3. اگر سائل صاحب ِ ثروت ہو تو بہتر یہ ہےکہ یتیم کے مال میں سے خرچ نہ کریں اور پورا محفوظ رکھ لیں ،اور اگر ضرورت ہو تو احتیاط سے بچے کے تعلیم و تربیت اور دیگر اخراجات میں خرچ کرے۔
  4. بچے کی تعلیم و تربیت کا بقدر استطاعت اچھا انتظام کیا جائے جس کا سائل کو اجر و ثواب ملے گا۔
  5. سائل کی بہن اور خاندان کی دیگر خواتین اور آئندہ اگر سائل کو بیٹی ہووہ   بچے کے لیے  نا محرم ہی رہیں گے۔

حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(حرم) على المتزوج ذكرا كان أو أنثى نكاح (أصله وفروعه) علا أو نزل (وبنت أخيه وأخته وبنتها) ولو من زنى (وعمته وخالته)."

(‌‌كتاب النكاح،فصل في المحرمات،ج3،ص28-29،ط:سعید)

قران مجید میں ہے:

"وَآتُوا اليَتامىٰ أَموالَهُم ۖ وَلا تَتَبَدَّلُوا الخَبيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلا تَأكُلوا أَموالَهُم إِلىٰ أَموالِكُم ۚ إِنَّهُ كانَ حوبًا كَبيرًا." [النساء: 2] 

"وَأَن تَقوموا لِليَتامىٰ بِالقِسطِ ۚ وَما تَفعَلوا مِن خَيرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كانَ بِهِ عَليمًا."  [ النساء:127]

" وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا ‌بِالْعَهْدِ ‌إِنَّ ‌الْعَهْدَ ‌كَانَ مَسْئُولًا ."[الإسراء: 34] 

"فأما اليتيم فلا تقهر ."[الضحى: 9]

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا عمرو بن زرارة: أخبرنا عبد العزيز بن أبي حازم، عن أبيه عن سهل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (أنا وكافل ‌اليتيم في الجنة هكذا). وأشار بالسبابة والوسطى، وفرج بينهما شيئا."

(كتاب الطلاق،باب: اللعان،ج5،ص2032،رقم:4998،ط:دار ابن كثير)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101766

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں