میں ہر رمضان کی پہلی پر زکات دیتا ہوں۔ گزشتہ سال میں نے ایک پلاٹ لیا ہے جو اب بیوی کے نام الاٹ ہے۔اس پلاٹ کے لیے میں نے دس لاکھ روپے قرض لیا تھا، جس میں سے چھ لاکھ ادا کرچکا ہوں پچاس ہزار ماہانہ کے حساب سے، چار لاکھ روپے ابھی بھی قرض دینا باقی ہے، ابھی میرے پاس ۵۰،۰۰۰ روپے موجود ہیں۔ برائے مہربانی زکات کیا کیا نصاب بنے گا؟
اگر آپ نے مذکورہ پلاٹ تجارت (بیچ کر نفع کمانے) کی نیت سے نہیں لیا تھا، بلکہ بیوی کے لیے لیا تھا تو اس پلاٹ پر زکات واجب نہیں ہے، اور چوں کہ آپ پر چار لاکھ قرض واجب الادا ہے اور آپ کی ملکیت میں صرف پچاس ہزار ہیں ؛ اس لیے اس نقدی کی وجہ سے بھی آپ پر زکات واجب نہیں ہوگی۔
’’ثم نیة التجارة والإسامة لاتعتبرمالم تتصل بفعل التجارة والإسامة ... ولو اشتری عروضاً للبذلة والمهنة ثم نوی أن تکون للتجارة بعد ذلك لاتصیر للتجارة مالم یبعها فیکون بدلها للتجارة؛ لأن التجارة عمل فلاتتم بمجرد النیة، بخلاف ما إذا کان للتجارة فنوی أن تکون للبذلة خرج عن التجارة بالنیة وإن لم یستعمله لأنها ترك العمل ‘‘.
(البحر الرائق، کتاب الزکاۃ، 2/225، 226) ط: سعید، کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208200927
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن