بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے علاوہ کسی دوسری چیز سے شہوت ابھارنے اور پوری کرنے کا حکم


سوال

 ایک نوجوان ہے،اس کی بری عادت یہ ہے کہ وہ منہ کے بل لیٹ کر سوجاتا ہے اور اپنے نیچے کچھ رکھ لیتا ہے پھر یہ تصور کرتے ہوئے کہ وہ اپنی بیوی کے اوپر لیٹ کر اس کے ساتھ جماع کررہاہے اسی حالت میں حرکت کرتا ہے۔ساتھ ہی اس کے اعضاء شہوت کو خیال میں لاتا ہے اور تصوراتی بوس و کنار کرتا ہے۔اس طرح انزال کرلیتا ہے۔تو کیا یہ عمل  مشت زنی کی طرح حرام ہے ؟ اگر مذکورہ عمل بحالت روزۂ رمضان انجام دے لے اور انزال ہوجائے تو کیا اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا؟ اگر ٹوٹ گیا تو صرف قضا ہوگی یا کفارہ بھی ؟ اور اگر نہیں ٹوٹا اور یہ سمجھ کر کھاپی لیا کہ روزٹوٹ گیا ہے تو قضا واجب ہوگی یا کفارہ بھی ؟

جواب

(۱)شریعتِ مطہرہ کی رو سے مرد کے لیے بیوی اور باندی سے جائز طریقے کے علاوہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی چیز کے ذریعہ  شہوت کو ابھارنا یا شہوت  پوری کرنا جائز نہیں ہے، لہٰذا سوال میں مذکورہ طریقے  پر  شہوت کو ابھارنا اور انزال کے ذریعہ شہوت پوری کرنا بھی مشت زنی کی طرح ناجائز ہے، بلکہ اگر مذکورہ شخص غیر شادی شدہ ہو تو کسی اجنبی عورت کو بیوی تصور کر کے اس سے بوس و کنار اور جماع کا خیال دل میں جمانا بھی مستقل گناہ کا باعث ہے۔

(۲،۳) روزہ کی حالت میں مذکورہ عمل کرنے سے انزال ہونے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس روزے کی قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔لیکن روزہ ٹوٹنے کے باوجود ایسے شخص کو  چاہیے کہ  اس کے بعد کچھ کھائے پیے نہیں، بلکہ روزہ داروں کی مشابہت اختیار کرے ، اور اپنے اس گناہ (مشت زنی اور روزہ توڑنے) پر صدقِ دل سے استغفار کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 399):

"وكذا الاستمناء بالكف وإن كره تحريماً؛ لحديث «ناكح اليد ملعون».

بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا ويدل أيضا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعال:ى{والذين هم لفروجهم حافظون}[المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي".

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (1/ 323) میں ہے:

"والاستمناء بالكف على ما قاله بعضهم، وعامتهم على أنه يفسد، ولايحل له إن قصد به قضاء الشهوة؛ لقوله تعالى:{والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] {إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم} [المؤمنون: 6] إلى أن قال: {فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون} [المؤمنون: 7] أي الظالمون المتجاوزون فلم يبح الاستمتاع إلا بهما، فيحرم الاستمتاع بالكف، وقال ابن جريج: سألت عنه عطاء، فقال: مكروه، سمعت قومًا يحشرون وأيديهم حبالى، فأظن أنهم هم هؤلاء. وقال سعيد بن جبير: عذّب الله أمَّةً كانوا يعبثون بمذاكيرهم".  فقط والله سبحانه أعلم.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 399):

"(قوله: وكذا الاستمناء بالكف) أي في كونه لايفسد، لكن هذا إذا لم ينزل، أما إذا أنزل فعليه القضاء، كما سيصرح به، وهو المختار كما يأتي، لكن المتبادر من كلامه الإنزال بقرينة ما بعده فيكون على خلاف المختار". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 406):

"(قضى) في الصور كلها (فقط) ... (والأخيران يمسكان بقية يومهما وجوبا على الأصح)؛ لأن الفطر قبيح، وترك القبيح شرعًا واجب.

"(قوله: والأخيران) أي من تسحر أو أفطر يظن الوقت ليلاً إلخ وقد تبع المصنف بذلك صاحب الدرر ولا وجه لتخصيصه كما أشار إليه الشارح فيما يأتي ... (قوله:؛ لأن الفطر) أي تناول صورة المفطر وإلا فالصوم فاسد قبله، وأشار إلى قياس من الشكل الأول ذكر فيه مقدمتا القياس وطويت فيه النتيجة، وتقريره هكذا: الفطر قبيح شرعًا..."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں