بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے لیے شوہر کو زکات دینا جائز نہیں


سوال

1۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرے پاس سونا تھا جس کی مالیت 10،  11 لاکھ کی قریب تھی،  اور مجھے گھر کی ضرورت تھی لیکن 10، 11  لاکھ میں ممکن نہیں تھا، میں  نے وہ سونا شوہر کے نام کرکے اس کے قرضوں میں دیا 2۔ تو بھائیوں نے امداد کر کے میرے لیے رقم جمع کرتے رہے 70، یا  80 لاکھ روپے جمع کیے میری ایک بہن کو بھی گھر کی ضرورت تھی تو کسی نے کہا کہ ان پیسوں کو انویسٹ کر کے آپ دونوں کے لیے گھر خریدنا آسان ہوگا،  میں نے وہ پیسے انویسٹ کر کے اب اس پر نفع ہوا ہے، اور میں زکوۃ دینے کی مستحق ہوں، اس مسئلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

3۔ نیز میرا شوہر بہت مقروض ہے میں نے جو سونا اسے دیا تھا اس کے باوجود وہ 40،  50 لاکھ روپے کا مقروض ہے، تو کیا میں اپنی زکات   شوہر کے قرضوں میں دے سکتی ہوں؟ شوہر کی دکانیں وغیرہ بھی ہیں لیکن سب ملا کر بھی قرضہ بہت زیادہ ہے

وضاحت: 

میں نے سونا شوہر کو تبرعا دیا ہے اس نے سونے کو بیچ کر کچھ رقم قرضوں میں چکائی کچھ رقم 4 ،5 لاکھ کے قریب رہتی ہے وہ بھی شوہر کی امانت ہے جو شوہر نے میرے پاس رکھوائی ہوئی ہے۔

میرے بھائی سعودی میں کھجور کی کمپنی میں  کام کرتے ہیں وہیں پر میرے پیسے کام میں لگائے جس پر  نفع  ہوا ہے۔

جواب

1۔صورت مسئولہ میں سائلہ نے اپنے شوہر کو اپنا ذاتی ملکیتی سونا تبرعًا دے دیا تو ایسی صورت میں مذکورہ سونا سائلہ کی ملکیت سے خارج ہو گیا ہے، اور سونا کو فروخت کر کے باقی ماندہ جتنی رقم بطور امانت سائلہ کے پاس ہے اس کا مالک شوہر ہے 2۔  سائلہ کے بھائیوں نے بطور امداد سائلہ کے لیے جتنی رقم جمع کی اور وہ رقم کھجور کی کمپنی میں کاروبار کے طور پر لگائی ہے، تو ایسی صورت میں قمری مہینوں کے اعتبار سے  سال پورا ہونے پر مذکورہ رقم اور اس کے کل نفع پر بحسب شرائط ڈھائی فیصد زکوۃ لازم ہے  3۔ بیوی کے لیے اپنی زکوۃ  شوہر کو یا اس کے قرضوں میں دینا شرعًا جائز نہیں اگرچہ شوہر مقروض ہے ،البتہ سائلہ نفلی صدقہ اپنے شوہر کو دے سکتی ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے: 

"أما تفسيرها : فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى هذا في الشرع كذا في التبيين، وأما صفتها فهي فريضة محكمة يكفر جاحدها ويقتل مانعها هكذا في محيط السرخسي، وتجب على الفور عند تمام الحول حتى يأثم بتأخيره من غير عذر وفي رواية الرازي على التراخي حتى يأثم عند الموت والأول أصح كذا في التهذيب، وأما شرط أدائها فنية مقارنة للأداء أو لعزل ما وجب."

(كتاب الزكاة، باب تفسيرها وشرائطها، ج1، ص188، ط: دار الكتب العلمية)

محیط برہانی میں ہے: 

"ولا يعطي زوجته بلا خلاف من أصحابنا ؛ لأن منافع الأموال مشتركة، فلا ينقطع حق المؤدى عن المؤدى، وكذا لا تعطي المرأة زوجها عند أبي حنيفة لما قلنا، وعندهما تعطيه لما روي أن امرأة ابن مسعود قالت الرسول الله عليه السلام : إني أريد أن أتصدق على زوجي، قال لها رسول الله ﷺ : لك أجران أجر الصدقة وأجر الصلة وأبو حنيفة رحمه الله يحمل الحديث على الصدقة النافلة."

(كتاب الزكات، ج2، ص282، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے: 

"ولا يدفع إلى امرأته للاشتراك في المنافع عادة ولا تدفع المرأة إلى زوجها عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى كذا في الهداية، ولا يجوز الدفع إلى عبده ومكاتبه ومدبره وأم ولده ولا إلى معتق البعض عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى."

(كتاب الزكاة، باب الصرف، ج1، ص207، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے: 

"ولا يجوز أن يدفع الرجل الزكاة إلى زوجته بالإجماع، وفي دفع المرأة إلى زوجها اختلاف بين أبي حنيفة وصاحبيه ذكرناه فيما تقدم. وأما صدقة التطوع فيجوز دفعها إلى هؤلاء والدفع إليهم أولى؛ لأن فيه أجرين أجر الصدقة وأجر الصلة وكونه دفعا إلى نفسه من وجه لا يمنع صدقة التطوع. قال النبي: صلى الله عليه وسلم «نفقة الرجل على نفسه صدقة وعلى عياله صدقة وكل معروف صدقة."

(كتاب الزكاة، فصل شرائط ركن الزكاة، ج2، ص49، ط:  دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102712

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں