بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا زیور کاروبار میں لگانا


سوال

اگر خاوند کے گھر والوں کی طرف سے عورت کو سونا دیا جائے اور کچھ عرصہ بعد خاوند کاروبار کی غرض سے وہ فروخت کرے اور رقم کاروبار میں لگائے تو کیا کوئی ممانعت تو نہیں ہے؟

جواب

لڑکے والوں کی طرف سے جو زیور ملتا ہے، اگر وہ صراحت کے ساتھ بطورِ  گفٹ دیا گیا ہو، تو اس پر بھی دلہن کی ملکیت ہوتی ہے، اور اگر دیتے وقت لڑکے والوں کی طرف سے استعمال کے لیے دینے کی صراحت کردی گئی ہو  کہ یہ زیور تم صرف استعمال کرسکتی ہو، تو اس صورت میں اس پر لڑکی کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی، صراحت کے مطابق اصل مالک کا تعین کیا جائے گا،  اور اگر دیتے وقت کوئی صراحت نہ کی گئی ہو ، تو اس صورت میں لڑکے کے گھرانے کے عرف کے مطابق مالک کا تعین کیا جائے گا، اور اگر لڑکے والوں کے یہاں کوئی عرف نہ ہو، تو عرفِ عام کا اعتبار کرکے ان زیورات کا مالک لڑکی کو قرار دیا جائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر زیور بیوی کا ہی ہے تو کاروبار میں لگانے کے لیے اس سے اجازت لینا ضروری ہے، نیز اگر وہ ہدیۃً دے تو وہ شوہر کی ملکیت ہے۔ اگر عاریۃً دے تو قرض ہے، اتنا ہی سونا واپس لوٹانا ضروری ہے۔

اگر سرمایہ کاری کے لیے دے تو کاروبار سے پہلے نفع کی تقسیم کا تناسب طے کرلیا جائے، اس تناسب کے مطابق حاصل شدہ نفع بیوی کا حق ہوگا۔

     وفیہ أیضاً:

قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً.

(3/ 153،  كتاب النکاح، باب المهر، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

والمعتمد البناء على العرف كما علمت.

(3/157، باب المهر، ط: سعید)        

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية.

(1 / 327، الفصل السادس عشر فی جہاز البنت، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں