بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کے مال سے اجازت کے بغیر واجب نفقہ کے علاوہ لے سکتی ہے


سوال

میرےشوہر مجھےمہینے کا خرچہ نہیں دیتے ، کہتے ہیں  کہ جو چاہیے وہ بتادیا کرو، میں بتا دیتی ہوں، لیکن پھر شوہر مطلوبہ چیزلانے میں بہت زیا دہ دن لگادیتے ہیں ،مجھے غصہ آجاتا ہے  اور میں لڑپڑتی  ہوں ، بہت زیادہ صبر کرتی ہوں کہ لے آئیں گے، لیکن بہت وقت گزر جا نے کے بعد کام ہوتا ہے، میں کہتی ہوں کہ آپ مجھے پیسے دے دیں ، میں خود لے آؤں گی ، اور پھر لڑائی بھی نہیں ہوگی، مسئلہ یہ ہے کہ مہینے کی خرچی بھی نہیں دیتے۔سات سال ہوگئے ہیں شادی کو، اور ضرورت کی چیزیں لینے میں بہت وقت لگا دیتے ہیں ، اب میں ان کی دراز سے اپنی ضرورت کے مطابق پیسے نکال لیتی ہوں ،کیا یہ صحیح ہے؟ ہر طرح سمجھا کر دیکھ لیا کہ 2000 دے دیں،  لیکن وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس نہیں ہیں ، اب شرعاً  کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ نے شوہروں کو اپنی بیویوں  کے  ساتھ حُسنِ سلوک و حُسنِ معاشرت کا پابند کیا ہے، جس میں اُن کے  ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، اُن کا حق بغیر ٹال مٹول کے ادا کرنا،اُن کے  نان نفقہ کا انتظام کرنا، اُن کی جنسی خواہش کی تسکین فراہم کرنا اوراُنہیں مارنےاورگالم گلوچ کرنے سےاحترازکرناسب داخل ہے ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :" تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے  اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں"۔

لہٰذا مذکورہ خاتون کے شوہر پر لازم ہےکہ وہ اپنی بیوی کے حقوق اداکرے، اُس کے نان نفقہ کا انتظام کرے، تاہم اگر  شوہر اپنی بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو بیوی اُس کے پیسوں سے  اپنی ضرورت   کے مطابق پیسےلے سکتی ہے۔ اور شوہرکے لیے مستحب ہے اور یہ اس کی  اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ واجب نفقہ کے علاوہ بھی حسبِ حیثیت کچھ رقم جیب خرچ کے لیے بیوی کو دیتا رہے، تاہم واجب نفقہ کے علاوہ جیب خرچ دینا شوہر پر لازم نہیں ہے،اگر گنجائش ہو تو تبرعاً  دل جوئی کے لیےدے دینا چاہیے اور اگر استطاعت  نہ ہو تو نہ دینے میں بھی حرج نہیں ہے، اور بیوی کا شوہر کے مال سے اجازت کے بغیر واجب نفقہ کے علاوہ نہیں لے سکتی۔

 ارشادِ باری تعالٰی ہے:

" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ." (النساء: 19)

ترجمہ: "اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے   کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

 حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي."

(مشکاة المصابیح، 2/282، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے  فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔"

(مظاہر حق، 3/370، ط:  دارالاشاعت)

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي."

(مشکاة المصابیح، 2/281، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فر مایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے  اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں۔"

(مظاہر حق، 3/365، ط:  دارالاشاعت)

شرح مشکلات القدوری  میں ہے:

"والنفقة واجبة بالنص وهو قوله تعالى: {وعلى المولود له رزقهن} [البقرة: 233] وبالسنة وهو قوله عليه السلام لهند امرأة أبي سفيان: "خذي من مال [أبي] سفيان ما يكفيك وولدك بالمعروف وعليه الإجماع."

(كتاب النفقات،ج:2،ص:233،ط:التراث الذهبي الرياض)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"المعاشرة بالمعروف من كف الأذى وإيفاء الحقوق وحسن المعاملة: وهو أمر مندوب إليه، لقوله تعالى:  "وعاشروهن بالمعروف "ولقوله صلّى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي"   وقوله:"استوصوا بالنساء خيراً"والمرأة أيضاً مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج.ومن العشرة بالمعروف: بذل الحق من غير مطل، لقوله صلّى الله عليه وسلم: "مَطْل الغني ظلم".ومن العشرة الطيبة: ألا يجمع بين امرأتين في مسكن إلا برضاهما؛ لأنه ليس من العشرة بالمعروف، ولأنه يؤدي إلى الخصومة. ومنها ألا يطأ إحداهما بحضرة الأخرى؛ لأنه دناءة وسوء عشرة. ومنها ألا يستمتع بها إلا بالمعروف، فإن كانت نِضْو الخلق (هزيلة) ولم تحتمل الوطء، لم يجز وطؤها لما فيه من الإضرار.

حكم الاستمتاع أو هل الوطء واجب؟ قال الحنفية: للزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج."

(البَاب الأوَّل: الزّواج وآثاره، 9 /6598 -6599، ط: دار الفكر)

 حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں: 

"بیوی کا یہ بھی حق ہےکہ اس کو کچھ رقم ایسی بھی دے جس کو وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکے، اس کی تعداد اپنی بیوی اور اپنی حیثیت کے موافق ہوسکتی ہے"

(منتخب انمول موتی، ص:142، ادارہ تالیفات اشرفیہ)

جیب خرچ دینے کی واقعی ضرورت ہے، مذکورہ عنوان کے تحت حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں:

"چوں کہ دینی ودنیوی مصارف (اخرجات) کی حاجت اکثر واقع ہوتی رہتی ہے۔ اور عورتوں کے پاس اکثر جدا گانہ مال نہیں ہوتا اس لیے مردوں کو مناسب ہے کہ نفقہ واجبہ (اور مہر) کے علاوہ حسب حیثیت کچھ خرچ ایسے مواقع کے لیے علیحدہ بھی دیا کریں۔"

(تحفہ زوجین،ص: 85، ط: المیزان) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں