بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شدید کمزوری کی وجہ سے شوہر کو تعلق قائم کرنے سے روکنا


سوال

میرے ایک ساتھی کا نام شہزاد صاحب ہے، جن کی بیوی بہت کمزور ہے۔ اس کا وزن 35 کلو ہے،  دو شادی شدہ بیٹیوں اور ایک شادی شدہ بیٹے کی ماں ہے۔ اب وہ اپنے شوہر کو حق زوجیت کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ براہ کرم مشورہ دیں کہ کیا کرنا ہے۔ کیا اس کی بیوی گناہ گار ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بیوی کا کسی شرعی عذر کے بغیر شوہر کو صحبت سے روکنا شریعت کی نظر میں بہت نا پسندیدہ عمل ہے، احادیثِ شریفہ میں ایسی عورت کے بارے میں سخت  وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لیکن اگر بیوی کسی شرعی عذر (بیماری وغیرہ) کی وجہ سے حق زوجیت ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی اس وجہ سے تعلق قائم کرنے سے روکے تو گناہ گار نہیں ہوگی اور شوہر پر بھی بیوی کی صحت کی رعایت رکھنا ضروری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کی بیوی  کمزوری کے باوجود صحبت کی طاقت رکھتی ہےتو اسے شوہر کو جماع سے نہیں روکنا چاہیے، تاہم اگر وہ شدید کمزوری کی بنا پر شوہر کو صحبت سے روکتی ہے تو گناہ گار نہیں ہوگی۔

الدر المختار میں ہے:

"ولو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها".

وفي الرد:

"وقدمنا عن التتارخانية أن البالغة إذا كانت لا تحتمل لا يؤمر بدفعها إلى الزوج أيضا، فقوله لا تحتمل يشمل ما لو كان لضعفها أو هزالها أو لكبر آلته. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة فيما يحرم على الزوج وطء زوجته مع بقاء النكاح قال: وفيما إذا كانت لا تحتمله لصغر أو مرض أو سمنه. اهـ.... فعلم من هذا كله أنه لا يحل له وطؤها بما يؤدي إلى إضرارها فيقتصر على ما تطيق منه عددا بنظر القاضي أو إخبار النساء".

(‌‌كتاب النكاح، باب القسم، 3/  204-203، ط: سعيد)

صحیح بخاری میں ہے:

"5194 - حدثنا ‌محمد بن عرعرة: حدثنا ‌شعبة، عن ‌قتادة، عن ‌زرارة، عن ‌أبي هريرة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها، لعنتها الملائكة حتى ترجع".

(‌‌‌‌كتاب النكاح، باب: إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها7/ 30 ، ط :المطبعة الكبرى الأميرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101905

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں