بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنے کی صورت میں طلاق دینے کا حکم


سوال

 میری عمر 38 سال ہے اور میری زوجہ کی عمر 34 سال ہے. ہماری شادی کو 15 سال ہو چکے ہیں،  دو بچے بھی ہیں،  میں نے آج تک اپنی زوجہ کو کسی چیز کی کوئی کمی نہیں آنے دی،  اس سب کے باوجود وہ آئے روز مجھ سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے،  اس وجہ سے کئی بار اس کی سرزنش بھی کی ہے اور مطالبہ طلاق پر مارا پیٹا بھی ہے، ہمارے درمیان ازدواجی تعلقات بھی ٹھیک ہیں،  لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آخر ماجرا  کیا ہے،  کیا مجھے طلاق دے دینی چاہیے؟  یا کیا کرنا چاہیے؟ ایک دفعہ تو وہ یہاں تک کہہ چکی ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو  مجھے طلاق دے دیں!

جواب

واضح رہے کہ عورت کا  شدید مجبوری کے بغیر شوہر سے طلاق  کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے کہ جو عورت  بغیر کسی مجبوری کے  اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرےاس پر جنت کی خوش بو حرام ہے۔

پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ازدواجی زندگی کے  پرسکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں،  نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں۔ دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ، ارشاد نبوی ہے:  بالفرض اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، بلا کسی ضرورت کے بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں، نبی کریم ﷺ  نے شرعی وجہ کے بغیر طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنے والی عورت کو منافق قرار دیا ہے۔

 لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل کی  بیوی کو چاہیے کہ وہ طلاق کا مطالبہ نہ کرے، آپ بھی جلد بازی میں اپنی بیوی کو طلاق نہ دیں، بلکہ بیوی کے طلاق کے مطالبہ کی وجہ معلوم کریں،  جس بات سے ناراض ہو کر وہ طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے اس کا تدارک کرنے کی کوشش کریں، اگر آپ کے لیے مسئلے کا حل ممکن نہیں تو خاندان کے بڑوں کو بھی مسئلہ سے آگاہ کیا جا سکتا ہے، ممکن ہے کہ وہ اس کی کوئی بہتر صورت نکال سکیں۔

اگر   تمام کوششوں  کے باوجود بیوی اپنے مطالبہ سے باز نہ آئے اور نباہ کی صورت بھی  نظر نہ آتی ہو تو ایسی صورت میں آپ کے لیے طلاق  دینے کی  گنجائش ہو گی۔

         سنن أبی داود  میں ہے:

"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة»".

 (1/310، باب الخلع، ط: حقانیہ)

         سنن أبی داود  میں ہے: 

"عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق»".  (2 / 255)

''فتاوی شامی'' میں ہے:

'' وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: « أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق»۔ قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ ''۔( (3 / 228) ط: سعید)

مشکوۃ شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المنتزعات والمختلعات هن المنافقات» . رواه النسائي".

 (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب الخلع و الطلاق 5 / 2144 ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں