میری منگیتر نے ایک شرط رکھ دی ہے کہ اسے نکاح نامہ پر طلاق کا حق چاہیے، جیسے مرد کے پاس ہوتا ہے۔ مجھے پوچھنا ہے کہ کیا شریعت نے عورت کو طلاق کا حق دیا ہے یا عورت کو طلاق کا حق دینے کا حکم کیا ہے مرد پر؟ اور کیا یہ چیز صحیح ہے کہ عورت کو طلاق کا حق دیا جائے؟ کیا میں شریعت کے خلاف تو نہیں جا رہا ؟
شریعتِ مطہرہ میں طلاق کا حق مرد کو حاصل ہے، ازخودعورت کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ مرد کی طرف سے اجازت ملے بغیر اپنے اوپر طلاق واقع کرے، بعض مواقع پر عورت مجبور ہوتی ہے ، ایسی صورت میں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ شوہر طلاق نہ دے کر بیوی کو تنگ کرے، اس لیے شریعت نے اس طرح کے ممکنہ خدشات سے بچنے کے لیے اس بات کی اجازت دی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو طلاق کا حق دے اور عورت بوقتِ ضرورت اسے استعمال کرے، تاہم بیوی کو طلاق کا حق دینے کے بعد شوہر کا طلاق دینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔
حیلہ ناجزہ میں بیوی کو طلاق کا حق حوالہ کرنے کی تین صورتیں مذکور ہیں:
1۔ عقدِ نکاح سے پہلے لکھوایا جائے۔
2۔ عقدِ نکاح میں زبان سے کہلوایا جائے۔
3۔ نکاح کے بعد لکھوایا جائے۔
پہلی اور دوسری صورت کے معتبر ہونے کے لیے ایک ایک شرط ہے۔
پہلی صورت کے لیے شرط یہ ہے کہ اس میں نکاح کی طرف نسبت ہو، مثلًا گر شوہر پر کوئی شرط مقرر کرنی ہے تو وہ شرط لکھنے کے بعد لکھا جائے: اگر میں فلاں دختر فلاں کے ساتھ نکاح کروں اور پھر اقرار نامہ میں مذکور شرائط میں سے کسی شرط کے خلاف کروں تو میری بیوی کو اختیار ہوگا کہ اسی وقت یا پھر کسی وقت چاہے تو عورت خود کو ایک بائن طلاق واقع کرکے اس نکاح سے الگ ہوجائے۔
اگر اس میں نکاح کی طرف نسبت نہ پائی گئی تو یہ تحریر کارآمد نہ ہوگی۔
دوسری صورت یعنی عین ایجاب و قبول ہی میں زبان سے یہ شرائط ذکر کی جائیں اس کے صحیح اور معتبر ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ ایجاب عورت کی جانب سے ہو یعنی اولاً خود عورت یا اس کا ولی عقدِ نکاح کے وقت اس طرح سے کہے: میں نے فلاں بنت فلاں کو اس شرط پر تمہارے نکاح میں دے دیا کہ اگر تم نے یہ کام کیا یا وہ کام کیا (جو شرائط لگانی ہیں وہ سب لگادی جائیں) تو اپنے معاملہ کا اختیار میرے/ مسماۃ موصوفہ کے ہاتھ میں ہوگا کہ اسی وقت یا پھر کسی وقت چاہوں یا چاہے تو اپنے آپ کو ایک طلاقِ بائن دے کر اس نکاح سے الگ کرسکوں یا کرسکے گی۔
اس کے جواب میں نکاح کرنے والا شخص یہ کہے: میں نے قبول کیا، اس پر عورت کو اختیار ہوگا کہ وہ جب اپنے اوپر شرائط کےخلاف دیکھے تو اپنے آپ کو ایک طلاقِ بائن واقع دے کر اس شوہر کے نکاح سے نکل جائے، یعنی اس طریقے سے کہہ دے کہ میں اپنے اوپر ایک طلاقِ بائن واقع کرتی ہوں۔
( الحیلۃ الناجزۃ ص: 38 تا 42 ط: مکتبہ رضی دیوبند)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: لم يكن له الأمر إلخ) ذكر الشارح في آخر باب الأمر باليد نكحها على أن أمرها بيدها صح. اهـ. لكن ذكر في البحر هناك: أن هذا لو ابتدأت المرأة، فقالت: زوجت نفسي على أن أمري بيدي أطلق نفسي كلما أريد أو على أني طالق فقال: قبلت وقع الطلاق وصار الأمر بيدها، أما لو بدأ هو لاتطلق ولايصير الأمر بيدها".
(کتاب النکاح، ج: 4، ص: 27، ط: سعید)
"البحر الرائق"میں ہے:
"ولأنه تمليك الفعل منها لكونها عاملة لنفسها وهو يقتصر عليه وأورد على أنه تمليك منها أنه كيف يعتبر تمليكا مع بقاء ملكه، والشيء الواحد يستحيل أن يكون كله مملوكا لشخصين، وأجاب في الكافي بأنه تمليك الإيقاع لا تمليك العين فقبل الإيقاع بقي ملكه."
(کتاب الطلاق،باب تفويض الطلاق،ج:3، ص: 335،ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100098
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن