بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر سے علیحدہ رہنے اور خدمت نہ کرنے کی وجہ سے دوسری شادی کرنے کا حکم


سوال

میری شادی کو تقریباً گیارہ مہینے ہوگئے، اس عرصہ میں میری بیوی صرف ڈیڑھ ماہ میرے ساتھ رہی ، پھر لڑائی جھگڑے کی وجہ سے اپنی امی کے گھر چلی گئی، میں نے منانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں مان رہی، میری والدہ بوڑھی ہے، اس کی خدمت کےلیے بھی تیار نہیں، اس طرح گھر کے کام کاج کھانا پکانا وغیرہ کے لیے بھی تیار نہیں، کچھ عرصہ پہلے میرا بیٹا پیدا ہوگیا، اس نے نہ مجھے آپریشن کے دستخط کےلئے بلایا، نہ بچے کے کان میں آذان کےلیے بلایا، مجھے فون پر اطلاع دی کہ بیٹا پیدا ہوگیا ہے، میں ہسپتال اس کے پاس پہنچ گیا، وہاں پر بھی بیوی مجھ سے بات نہیں کررہی تھی۔

ابھی بھی وہ امی کے گھر پر ہے، نہ مجھے بچے سے ملنے دے رہی ہے، نہ رابطہ کرتی ہے، میں گھر میں اکیلا ہوں، میری ضعیف والدہ ہےجو میرے ساتھ رہارئش پذیر ہے، جو پیر ٹوٹنے اور پڑھاپے کی وجہ سے کا م کاج نہیں کرسکتی، میں صبح گھر کو تالا لگا کر کام پر جاتا ہوں اور رات کو واپس آتا ہوں، اور ساری خدمت اکیلے کرتاہوں، مجھے خوف ہے کہ کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوجاؤں،اس ساری صورتِ حال میں کیاشریعت مجھے دوسری شادی کی اجازت دیتی ہے؟ واضح رہے کہ بیوی نہ تو طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، نہ خلع کا اور نہ ان کے گھر والے بات کرنے کےلیے تیار ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اولاً تو سائل کو چاہیے کہ اپنے خاندان کے سمجھدار و دیانت دار لوگوں کو بیچ میں ڈال کر افہام  وتفہیم سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرے، اس کے باوجود اگر سائل کی بیوی گھر بسانے پر آمادہ نہ ہو، تو سائل کو اختیارہے،   موجودہ بیوی کو طلاق دے کربھی دوسری شادی کرسکتاہے، اور اس کو نکاح میں رکھ کر بھی دوسری نکاح کرسکتاہے،کیوں کہ ایک مرد کو بیک وقت ایک سے لےکر چار تک شادیاں کرنےکی شرعاً اجازت ہے۔

قرآن مجید میں ہے۔

"فَٱنكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثۡنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تَعۡدِلُواْ فَوَٰحِدَةً أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَٰنُكُمۡۚ ذَٰلِكَ أَدۡنَىٰٓ أَلَّا تَعُولُواْ"

(سورۃ النساء:اٰیت:3)

البحرالرائق ميں  ہے:

"وفي غاية البيان: يستحب طلاقها إذا كانت ‌سليطة مؤذية أو تاركة للصلاة لا تقيم حدود الله تعالى اهـ"

(كتاب الطلاق /ج:3/ص:255/ط:دارالکتاب)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، ‌بمعنى ‌أنه ‌محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى۔"

(کتاب الطلاق،ج3/ص228/ط،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں