میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہوں،اور تین غیر شادی شدہ بہنیں ہیں،بیوی اور بچے بھی ہیں،میری اہلیہ کا مطالبہ ہے کہ ہمیں علیحدہ رہائش دی جائے،کیا میں اپنی ماں کو چھوڑدوں،جب کہ ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے؟راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کی شرعی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی بیوی کو ایساکمرہ دے جس میں شوہر کے گھروالوں کی مداخلت نہ ہو،اس کا کچن اور بیت الخلاء بھی الگ ہو لہذا اگر سائل نے بیوی کو ایساکمرہ دیا جس میں گھر والوں کاکوئی عمل دخل نہیں ہے تو یہ کافی ہے،اس صورت میں علیحدہ گھر کامطالبہ کرنا شرعاًدرست نہیں،کیوں کہ والدہ کی خدمت اور بہنوں کی ذمہ داری بھی سائل پر ہے۔
"الفتاوى الهندية"میں ہے:
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك۔۔امرأة أبت أن تسكن مع ضرتها، أو مع أحمائها كأمه وغيرها، فإن كان في الدار بيوت فرغ لها بيتا، وجعل لبيتها غلقا على حدة ليس لها أن تطلب من الزوج بيتا آخر."
(الباب السابع عشر في النفقات، ج:1، ص:556،ط: رشيدية)
"ردالمحتار"میں ہے:
"(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله)
(قوله وكذا تجب لها) أي للزوجة السكنى أي الإسكان، وتقدم أن اسم النفقة يعمها؛ لكنه أفردها؛ لأن لها حكما يخصها نهر (قوله خال عن أهله إلخ) ؛ لأنها تتضرر بمشاركة غيرها فيه؛؛ لأنها لا تأمن على متاعها ويمنعها ذلك من المعاشرة مع زوجها ومن الاستمتاع إلا أن تختار ذلك؛ لأنها رضيت بانتقاص حقها هداية."
(باب النفقة، مطلب في مسكن الزوجة، ج:3، ص:600، ط:سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144406102148
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن