1-بصورت مسئولہ بیوی کا شوہر سے بدزبانی اور بد کلامی کرنا ناجائز اور حرام ہے۔اور اس کا شوہر پر ہاتھ اٹھانا چاہے شوہر کے ہاتھ اٹھانے کے بعد ہی کیوں نہ ہو انتہائی بے ہودہ حرکت ہے۔ بیوی پر لازم ہے کہ توبہ اور استغفار کرے اور شوہر سے بھی معافی مانگے۔ نیز شوہر کو بھی اللہ تعالی نے حدود میں رہتے ہوئے بیوی کی تادیب کا حکم فرمایا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں سورۂ نساء کی آیت 34میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان بیوی کی اصلاح کے علی الترتیب تین طریقے ذکر فرمائے ہیں:
یعنی عورت اگر نافرمان ہے یا اس کی جانب سے نافرمانی کااندیشہ ہے، تو پہلا درجہ اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے اس کو سمجھائے ،اگربیوی محض سمجھانے سے باز نہ آئے، تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ شوہر اپنا بستر علیحدہ کر دے، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضگی کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہو جائے، قرآن کریم میں '' فِی المْضَاجِعِ ''کا لفظ ہے، اس کامطلب فقہاءکرام نے یہ لکھا ہے کہ جدائی صرف بستر میں ہو، مکان کی جدائی نہ کرے کہ عورت کو مکان میں تنہا چھوڑ دے ،اس سےفساد بڑھنے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ چناں چہ ایک صحابی سے روایت ہے:
’’میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ اور چہرے پر مت مارو، اگر اس سے علیحدگی کرنا چاہو تو صرف اتنی کرو کہ (بستر الگ کر دو) مکان الگ نہ کرو ۔‘‘
اور جوعورت اس سزا سے بھی متاثر نہ ہو تو پھر اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کو مطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔چناں چہ "بخاری شریف" کی روایت میں ہے:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے ؛کیوں کہ یہ بات مناسب نہیں کہ اول تو اسے مارے پھر اخیر دن اس سے اپنی خواہش پوری کرے۔‘‘
2-صورت مسؤلہ میں جب بیٹے نے والد کو قرضہ دیا تھا یعنی یہ طے تھا کہ والد بعد میں پیسے ادا کر یں گے، تو والد بیٹے کے مطالبہ پر اس قدر رقم ادا کرنے کا پابند ہے۔ البتہ اس کے لئے دکان بیچنا لازم نہیں بلکہ وہ والد ہی کی ملکیت ہے ۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"المراد من التركة ما تركه الميت خاليا عن تعلق حق الغير بعينه."
(8/ 557،دارالكتب الاسلامی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309101457
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن