بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر ملازمت کے لیے گھر سے نکلنے کا حکم


سوال

اگر بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نوکری کرتی ہے، اور اس کو پیسے بھی نہیں دیتی تو اسلام کیا کہتا ہے؟

جواب

دینِ اسلام کی رو سے عورت کے لیے بلا ضرورت نوکری کے لیے گھر سے باہر نکلنا بالکل بھی پسندیدہ نہیں ہے، کیوں کہ یہ بہت سی خرابیوں اور مفاسد کا باعث بنتا ہے، اسی لیے شریعتِ مطہرہ نے عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اس کے سرپرست پر رکھی ہے یعنی اگر وہ بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ اس کے اخراجات اٹھانا لازم ہے، اور اگر وہ ماں ہے تو   اولاد اس کے نان و نفقہ کی ذمہ دار ہے، اور اگر وہ بیوی ہے تو شوہر اس کے اخراجات کا ذمہ دار ہے، البتہ اگر کوئی مجبوری ہو  (مثلًا کوئی ایسا مرد نہ ہو جو کما کر عورت کی کفالت کرسکے) تو اس صورت میں اگر عورت مکمل پردہ کے ساتھ نوکری کے لیے گھر سے نکلے  تو اس کی گنجائش ہے، لیکن صرف شوقیہ اور بغیر پردے کے عورتوں کا دفتروں میں کام کرنا، اور مردوں کے ساتھ اختلاط کرنا شریعتِ مطہرہ میں جائز نہیں ہے۔ اسی طرح شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کا ملازمت کے لیے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، البتہ شدید مجبوری کی صورت میں اگر عورت شوہر کی اجازت سے  مکمل پردے کے ساتھ ملازمت کے لیے گھر سے نکلے تو اس کی گنجائش ہوگی بشرطیکہ ملازمت کی جگہ پر  نامحرم مردوں کے ساتھ  تنہائی  یا اختلاط  اور بلاضرورت بات چیت نہ ہو۔ لیکن اس صورت میں ملازمت سے حاصل کردہ کمائی عورت  کی اپنی ذاتی ملکیت ہی ہوگی، اپنی کمائی شوہر کو دینا اس پر لازم نہ ہوگا اور شوہر بھی  اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف نہیں کر سکتا، بیوی چاہے تو خود خرچ کرے، چاہے تو شوہر اور اولاد پر بھی خرچ کر سکتی ہے۔ شوہر کو نہ دینے کی صورت میں گناہ گار تو نہیں ہوگی، البتہ اگر شوہر اور اولاد پر بھی خرچ کردے گی تو  وہ دوہرے اجر و ثواب کی مستحق ہوگی، ایک قرابت داری کا اور دوسرا صدقہ کرنے کا۔ چنانچہ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ سے فرمایا کہ ان کو اپنے ضرورت مند شوہر اور بچوں پر خرچ کرنے کی صورت میں دہرا اجر ملے گا، ایک قرابت داری کا اور دوسرا صدقہ کا ثواب۔

صحيح البخاري (2/ 121):

’’ حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال: حدثني شقيق، عن عمرو بن الحارث، عن زينب - امرأة عبد الله رضي الله عنهما - قال: فذكرته لإبراهيم، ح فحدثني إبراهيم، عن أبي عبيدة، عن عمرو بن الحارث، عن زينب امرأة عبد الله - بمثله سواء - قالت: كنت في المسجد، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «تصدقن ولو من حليكن» وكانت زينب تنفق على عبد الله، وأيتام في حجرها، قال: فقالت لعبد الله: سل رسول الله صلى الله عليه وسلم أيجزي عني أن أنفق عليك وعلى أيتام في حجري من الصدقة؟ فقال: سلي أنت رسول الله صلى الله عليه وسلم [ص:122]، فانطلقت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فوجدت امرأة من الأنصار على الباب، حاجتها مثل حاجتي، فمر علينا بلال، فقلنا: سل النبي صلى الله عليه وسلم أيجزي عني أن أنفق على زوجي، وأيتام لي في حجري؟ وقلنا: لا تخبر بنا، فدخل فسأله، فقال: «من هما؟» قال: زينب، قال: «أي الزيانب؟» قال: امرأة عبد الله، قال: «نعم، لها أجران، أجر القرابة وأجر الصدقة».‘‘

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (9/ 43):

"قوله: (لها أجران: أجر القرابة) أي: أجر صلة الرحم، (وأجر الصدقة) أي أجر منفعة الصدقة."

صحيح البخاري (2/ 122):

’’ حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا عبدة، عن هشام، عن أبيه، عن زينب بنت أم سلمة، عن أم سلمة، قالت: قلت: يا رسول الله، ألي أجر أن أنفق على بني أبي سلمة، إنما هم بني؟ فقال: «أنفقي عليهم، فلك أجر ما أنفقت عليهم».‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں