اگر بیوی ہر 15 دن یا ہفتے میں صبح سے رات تک کے لیے اپنے میکے جاتی ہواور گھر میں اس کا شوہر اکیلا ہوتا ہو تو کیا بیوی کا میکے میں رات رُکنا اس کا حق ہے؟ اگر شوہر کی رضامندی کے بغیر رک جائے تو کیا اس کا مواخذہ ہوگا؟
واضح رہے کہ بیوی کا اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، ایسی خاتون کےبارےمیں حدیثِ مبارک میں وعید آئی ہے، حدیث شریف میں ہے کہ ایک خاتون نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ : شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : شوہر کا حق اس پر یہ ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نہ نکلے، اگر وہ ایسا کرے گی تو آسمان کے فرشتے اور رحمت وعذاب کے فرشتے اس پر لعنت بھیجیں گے، یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سےنکل کر اپنےمیکے جانا اور وہاں رات گزارنا جائز نہیں، اور اگر شوہر نے میکے جاکر والدین سے ملنے کی اجازت تو دی ہے لیکن وہاں رات گزارنے کی اجازت نہیں دی تو بیوی پر لازم ہے کہ رات واپس اپنے گھر لوٹ آۓ؛ تاکہ احادیث میں بیان کی گئی وعید کی مستحق نہ ٹھہرے، ورنہ خلاف ورزی کی صورت میں بیوی از روئے شرع نافرمان ہوگی اور ایسی بیوی کے لیے شوہر کے ذمہ سے نفقہ بھی ساقط ہوجاتا ہے ۔
البتہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہفتے میں ایک مرتبہ بیوی کے والدین سے اور سال میں کم از کم ایک مرتبہ اس کے محارم سے اس کی ملاقات کی اجازت دے، خواہ خود لے جاکر ملاقات کرائے یا بیوی کو اپنی اجازت سے بھیج دے یا بیوی کے والدین کو اپنے گھر ملاقات کا موقع دے دے۔ میاں بیوی کا رشتہ قانون سے زیادہ اخلاق سے چلتا اور پائے دار رہتاہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھروالوں (بیوی) کے ساتھ اچھا ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے زیادہ اچھا (سلوک کرنے والا) ہوں۔
حدیث شریف میں ہے:
"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟؛ فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها، ومن حق الزوج على الزوجة أن لاتصوم تطوعاً إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت و لايقبل منها، و لاتخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لا جرم و لا أتزوج أبداً". رواه الطبراني".
(الترغيب والترهيب للمنذري:3/ 37)
فتاوی شامی میں ہے:
"و لیس لها أن تخرج بلا إذنه أصلًا".
(ردالمحتار علی الدرالمختار: (3 / 146) ط:ایچ ایم سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"لانفقة لأحد عشر ... وخارجة من بیته بغیر حق و هي الناشزة حتی تعود".
(ردالمحتار علی الدر المختار (3 /575) ط:ایچ ایم سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144212202330
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن