بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کے لیے زیب و زینت اختیار کرنے کا حکم


سوال

کیا میری بیوی سکول جانے کےلئے میری  موجودگی  اور غیر موجودگی میں میک اپ کر سکتی ہے؟،  میں اگر منع کروں تو وہ بولتی ہے کہ  میں آپ کے لیے سجی ہوں،  اسکا جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے جہاں زیب وزینت کے باب میں عورتوں کے لیے قدرے نرمی  اور وسعت رکھی ہے ، وہیں انہیں  اس بات کا بھی پابند کیا   ہےکہ ان کی زیب وزینت اور بناؤ سنگھار سب  مکمل طور پر شریعت کے دائرے میں رہ کر  ہو  ،اور  زیب و زینت کے نام پر کوئی  بھی ایسا قدم ہر گز نہ اٹھا ئیں کہ جس سے کسی بھی قسم کے فتنے اور بے حیائی کا دروازہ کھلے، چنانچہ شریعت نے اس سلسلے میں عورتوں کو پابند کیا ہے کہ وہ صرف  اپنے محار م اور شوہر کے سامنے ہی   زیب وزینت  اختیار کریں ، ان محارم میں بھی اصل شوہر ہے،لہٰذا جب زیب و زینت کا  اصل مقصد  شوہر کو راضی کرنا ہے،  تو اس کے لیے سجنا سنورنایہی ہے  کہ گھر میں  (اور دیگر مختلف مواقع پر شوہر کی پسند نا پسند کا لحاظ کرکے شریعت کے مطابق) زیب و زینت اختیار کی جاۓ نہ کہ صرف باہر نکلتے وقت،گھر میں سادہ اور عام کپڑوں میں رہنا اور باہر نکلتے وقت  خوب اہتمام کرنا درست نہیں، شوہر کے علاوہ کسی اور کے لیے زیب و زینت اختیار کرنا  سخت گناہ کا باعث ہے ، جس پر حدیث میں سخت وعید بھی موجود ہے،چنانچہ سنن ِ ترمذی میں ہے:"مثل ‌الرافلة في الزينة في غير أهلها كمثل ظلمة يوم القيامة لا نور لها" ترجمہ :"اپنے خاوند کے علاوہ دوسروں کے لیے زیب وزینت اختیار کرنے والی عورت قیامت کے دن ایسی تاریکی میں ہوگی کہ وہاں روشنی کی کوئی صورت بھی نہیں ہوگی"،

چنانچہ صورتِ مذکورہ میں بیوی کو چاہیے کہ صرف شوہر کی موجودگی میں ہی زینت اختیار کرے ،ملازمت کے لیے   جاتے وقت زینت کا اہتمام کرنے سے گُریز  کرے، اور شریعت کے احکامات کے مطابق شوہر کی پسند نا پسند کاخیال رکھے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ .....................الخ

ترجمہ:"اور(عورتیں)اپنی زینت (کے مواقعِ مذکورہ) کو (کسی پر)ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے (محارم پر یعنی) باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر یا اپنے(حقیقی،علاتی اور اخیافی) بھائیوں  یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی (حقیقی ،علاتی اور اخیافی) بہنوں کے بیٹوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ."

(تفسیربیان القرآن،سورۃالنور،الآیة:31،ط:مکتبةرحمانیة)

سننِ ترمذی میں ہے:

"عن ميمونة بنت سعد وكانت خادما للنبي صلى الله عليه وسلم قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:مثل ‌الرافلة في الزينة في غير أهلها كمثل ظلمة يوم القيامة لا نور لها."

(أبواب الرضاع،باب ما جاء في کراهية خروج النساء في الزینة،220/1،قدیمی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں