بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہرکےسامنےناچنےکاحکم


سوال

میری کزن نے سوال پوچھا ہے کہ اس کا خاوند اس کو کہتا ہے کہ میرے سامنے اکیلے میں ڈانس کرو، کیا وہ اپنے خاوند کے سامنے ڈانس کرسکتی ہے؟

جواب

واضح رہےکہ رقص(ناچنے) کی مروّجہ کیفیت جس میں تھرکنے اور لچکنے کی کیفیت پائی جاتی ہے اور مخنّث لوگوں کے طریقہ سے مماثلت رکھتا ہے،یہ ہر حال میں ناجائز اور حرام ہے، مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی،اسی طرح رقص سے حیا و مروّت بھی ختم ہوجاتی ہے،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں بیوی کااپنےشوہرکےسامنےناچنا(ڈانس کرنا)اگرچہ تنہائی میں ہو،شرعاً ناجائز اورحرام ہے۔

"الموسوعة الفقهية الكويتية "میں ہے:

"رقص: التعريف:... واصطلاحاً: عرف ابن عابدين الرقص بأنه التمايل، والخفض، والرفع بحركات موزونة ... فذهب الحنفية والمالكية والحنابلة والقفال من الشافعية إلى كراهة الرقص معللين ذلك بأن فعله دناءة وسفه، وأنه من مسقطات المروءة، وأنه من اللهو... وهذا كله ما لم يصحب الرقص أمر محرم كشرب الخمر، أو كشف العورة ونحوهما، فيحرم اتفاقاً."

(رقص، حكم الرقص، 10/23، ط: دارالسلاسل)

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن يستحل الرقص قالوا بكفره ... ولا سيما بالدف يلهو ويزمر."

"(قوله: و من يستحلّ الرقص قالوا بكفره) المراد به التمايل و الخفض و الرفع بحركات موزونة كما يفعله بعض من ينتسب إلى التصوفو قد نقل في البزازية عن القرطبي إجماع الأئمة على حرمة هذا الغناء و ضرب القضيب و الرقص قال: ورأيت فتوى شيخ الإسلام جلال الملة والدين الكرماني أن مستحلّ هذا الرقص كافر، وتمامه في شرح الوهبانية، ونقل في نور العين عن التمهيد: أنه فاسق لا كافر."

(كتاب الجهاد، مطلب في مستحل الرقص،4/ 259، ط: سعيد)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"مندرجہ بالا آیات و احادیث سے رقص مذکور کی حرمت صراحۃً ثابت ہوتی ہے۔ بالخصوص جب اس میں غیر محرم سے اختلاط و مباشرت بھی ہو تو حرمت مزید مغلظ ہو جاتی ہے۔ ایسے فحشاء کے کرنے والا فاسق ،فاجر، مرتکب کبیرہ ہے۔"

(باب الحظر والاباحۃ، جس شخص کی بہن، بیٹی اور بیوی وغیرہ ڈانس کرتی ہو اس سے ہم کیا تعلقات رکھیں، ج:11، ص:215، ط:جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں