بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کے مال میں تصرف کرنے کا حکم


سوال

 مال کو ایک شخص کماتا ہے ، نان نفقہ بیوی کو دیتا ہے تو باقی مال میں کیا بیوی تصرف کر سکتی ہے،  اور کن احوال میں بیوی شوہر کے پوچھے بغیر مال کا استعمال کر سکتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ شوہر اپنے کمائے ہوئے مال کا خود مالک ہے، بیوی مالک نہیں ہے اور شرعی طور پر دوسروں کے مال میں بلا اجازت تصرف کرنے کی ممانعت ہے، خواہ وہ مال شوہر کا ہی کیوں نہ ہو، اس لیے بیوی کا شوہر کے گھر سے اس کی مملوکہ چیز (روپیہ پیسہ ہو یا کچھ اور) شوہر کی اجازت کے بغیر استعمال میں لانا یا کسی اور کو دینا، چاہے صدقہ کے طور پر ہی ہو،جائز نہیں ہے؛ البتہ جب گھر کی ضروریات مثلاً سودا سلف (روز مرہ کی اشیائے صرف) لانے یا بچوں کی کوئی معمولی قیمت والی ضرورت کی چیز خریدنے کے لیے شوہر کی طرف سے رقم لینے کی صراحتاً یا عرفاً اجازت ہو، تو بیوی شوہر کے علم میں لائے بغیر صرف اسی قدر روپے لے سکتی ہے، جتنی کہ ضرورت ہے، اسی طرح اگر ان چیزوں کے لیے بھی شوہر نے اجازت نہیں دی اور بیوی اپنے پاس سے ان چیزوں کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی، تو بیوی کو بغیر اجازت بھی بقدرِ ضرورت (جس کی مثال گزر چکی) رقم لے لینے کی گنجائش ہے۔

سنن الترمذي میں ہے:

" عن ‌أبي أمامة الباهلي ، قال: «سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطبته عام حجة الوداع» يقول: لا تنفق امرأة شيئا من بيت زوجها إلا بإذن زوجها. قيل: يا رسول الله، ولا الطعام؟ قال: ذاك أفضل أموالنا."

( أبواب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب في نفقة المرأة من بيت زوجها، ج: 2، ص: 49، ط: دار الغرب الإسلامي)

ترجمہ:" حضرت ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خطبہ میں فرماتے سنا: "عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے"، دریافت کیا گیا: اللہ کے رسول! اور کھانا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: "یہ ہمارے مالوں میں سب سے افضل مال ہے۔"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(عن أبي أمامة قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول في خطبة عام حجة الوداع) بفتح الواو وتكسر " لا تنفق " نفي وقيل: نهي، في المصابيح: ألا لا تنفق " امرأة شيئا من بيت زوجها إلا بإذن زوجها " أي صريحا أو دلالة (قيل: يا رسول الله ولا الطعام؟ قال: " ذلك ") أي الطعام " أفضل أموالنا " أي أنفسنا، وفي نسخة أموال الناس، يعني فإذا لم تجز الصدقة بما هو أقل قدرا من الطعام بغير إذن الزوج، فكيف تجوز بالطعام الذي هو أفضل."

(كتاب الزكاة، باب صدقة المرأة من مال الزوج، الفصل الثاني، ج: 4، ص: 1358، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603101038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں