میں سعودیہ میں جاب کرتا تھا،میری بیوی بھی میرے ساتھ رہتی تھی،نان نفقہ کے علاوہ میں کچھ ریال گھر دیتا تھاتو میری اہلیہ خرچ کردیتی تھی تو میں نے یہ راہ اختیار کی کہ وقتا فوقتا پیسوں سے سونا خرید لیا کرتا تھااور گھر رکھتا تھا،یہ میں بطور ملکیت کسی کو نہیں دیتا تھا،بلکہ بیگم کوکہہ رکھا تھاکہ سونا کسی وقت بچوں کی شادی وغیرہ میں ہمارے کام آئےگا،اس کو محفوظ کرلو،اب کچھ مہینے قبل بیوی سے لڑائی کے دوران بیوی نے کہا کہ تم مجھے چھوڑدو،میں نے جواب میں کہاکہ’’میں چھوڑ رہا ہوں‘‘تقریباً آٹھ دس بار میں نے یہ جملہ بولا،اس واقعہ کو چھ مہینے ہوگئےہیں ،اب سوال یہ ہے کہ مذکوره سونے کی ملکیت کس کی ہوگی؟میری یا میری بیوی کی؟ابھی قبضہ اس کے پاس ہے،وہ دینےکو تیار ہی نہیں،سونے کی کل مالیت ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے ہے۔
تنقیح:
شروع میں تو میں بیوی کے پاس ریال رکھ لیتا تھا لیکن وہ ریال کو خرچ کردیتی تو میں نے پھر یہ طریقہ اختیار کیاکہ ریال سے سونا خرید تا اور بیوی کے پاس رکھواکر بیوی سے یہ کہتا کہ یہ سونااپنے پاس رکھو،جب ہم پاکستان جائیں گےتو گھر خریدنے میں یا بچوں کی شادی کےموقع پر یہ ہمارے کام آئے گا۔
مذکورہ سونے میں سے کچھ سونا زیور کی شکل میں اور کچھ بسکٹ کی شکل میں تھا۔
صورت ِمسئولہ میں اگر واقعۃ یہ سونا سائل نے اپنی بیوی کو ملکیۃً نہیں دیا تھا،بلکہ حفاظت کی غرض سے امانۃً تصریح کرکےاس کے پاس رکھواتا تھا (جیسا کہ سائل کا بیان ہے )تو یہ سونا سائل ہی کی ملکیت ہے ،بیوی پر لازم ہے کہ یہ سونا شوہر (سائل) کوجلد واپس کردے ، کیوں کہ امانت کے اداکرنے کاحکم قرآن کریم اور احادیث مبارکہ دونوں میں دیا گیاہے، اور امانت کو ادانہ کرنے والا غاصب کے حکم میں ہے۔نیز جب سائل کی بیوی نےلڑائی کے دوران یہ کہاتھا کہ’’ تم مجھے چھوڑدو‘‘ اور اس پر آٹھ دس دفعہ شوہر( سائل) نے یہ بولاکہ’’میں چھوڑ رہا ہوں‘‘ان الفاظ سے بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،نکاح ختم ہوچکا ہےاور بیوی اپنےشوہرپر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
" إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا." (سورۃ النساء:58)
ترجمہ:بے شک اللہ تعالی تم کو اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہل حقوق کو ان کے حقوق پہنچادیاکرو ۔(از بیان القران)
صحیح البخاری میں ہے:
"عن أبي هريرة:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان."
ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منافق کی تین علامتیں ہیں،جب بات کرے تو جھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تواس کے خلاف کرے،اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔"
(کتاب الأدب، باب قول الله تعالى :يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين، 2262/5، ط: دار ابن كثير)
ملتقی الابحر میں ہے:
"فإن طلبها ربها فحبسها وهو قادر على تسليمها صار غاصبا."
( کتاب الودیعة، 470، ط: دار الكتب العلمية - لبنان ،بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
" بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري.
ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي.
والحاصل أن المتأخرين خالفوا المتقدمين في وقوع البائن بالحرام بلا نية حتى لا يصدق إذا قال لم أنو لأجل العرف الحادث في زمان المتأخرين، فيتوقف الآن وقوع البائن به على وجود العرف كما في زمانهم. وأما إذا تعورف استعماله في مجرد الطلاق لا بقيد كونه بائنا يتعين وقوع الرجعي به كما في فارسية سرحتك."
(کتاب الطلاق، باب الکنایات،299/3، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة ومايتصل به،1/ 473 ، ط : مكتبه رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101973
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن