بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا سردی میں غسل کرنے کی وجہ سے ہم بستری سے انکار کرنا


سوال

اگر بیوی سردیوں میں روزہ رکھنا چاہتی ہے تو شوہر اجازت دے دیتاہے،  لیکن  کبھی کبھار شوہر کا رات کو  ہم بستری کا دل ہوتا ہے تو بیوی کہتی ہے  ابھی نہیں، صبح نماز کے بعد، تاکہ آرام سے نہایا جا سکے، لیکن  مرد کا صبح کے وقت دل نہ ہو، بلکہ رات کو برداشت کرنا مشکل ہو تو اس میں مرد یا عورت کے کیا احکام ہیں؟

جواب

روزہ میں طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک (یعنی روزے کی حالت میں)  بیوی کے ساتھ  ہم بستری کرنا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ رات کو بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اگر شوہر رات کو ہم بستری کے لیے بلائے تو بیوی  محض غسل کی وجہ سے انکار نہ کرے، عورت کے لیےشوہرکو ہم بستری سے روکنا شرعاً جائز نہیں،احادیثِ مبارک میں ہم بستری کے لیے   شوہر کے بلانے پر بیوی کے نہ جانے پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔

بخاری شریف  میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا باتت المرأة ‌مهاجرة فراش زوجها، لعنتها الملائكة حتى ترجع»."

" ترجمہ: جب کوئی عورت اپنے شوہر کے بستر چھوڑ کر رات گزارتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔"

(كتاب النكاح،‌‌باب إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها،ج:7،ص:30،الرقم:5194،ط:المطبعة الكبرى الأميرية،ببولاق مصر)    

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده، ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشها، فتأبى عليه، إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى ‌يرضى ‌عنها»."

ترجمہ: "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بستر پر بلائے، وہ انکار کردے تو باری تعالی اس سے ناراض رہتا ہے یہاں تک کہ شوہر اس (بیوی) سے راضی ہوجائے۔"

( كتاب النكاح،باب تحريم امتناعها من فراش زوجهاج:2،ص:1060،رقم الحديث:1436،ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت)

ترمذی شریف میں ہے:

"عن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا الرجل دعا زوجته لحاجته ‌فلتأته، وإن كانت على التنور."

ترجمہ: "رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مرد اپنی بیوی کو  اپنی حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے، اگر چہ تنور پر( روٹی بنارہی) ہو ( تب بھی چلی آئے)۔"

(باب ما جاء في حق الزوج على المرأة،ج:2،ص:456،رقم الحديث:1160،ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وحقه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به.(قوله: في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به." 

(باب القسم بين الزوجات،ج:3،ص:208،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه: فالإمساك عن الأكل، والشرب، والجماع لأن الله تعالى أباح الأكل، والشرب، والجماع في ليالي رمضان لقوله تعالى {‌أحل ‌لكم ‌ليلة ‌الصيام الرفث} إلى قوله {فالآن باشروهن وابتغوا ما كتب الله لكم وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر} [البقرة: 187] أي: حتى يتبين لكم ضوء النهار من ظلمة الليل من الفجر، ثم أمر بالإمساك عن هذه الأشياء في النهار بقوله عز وجل {ثم أتموا الصيام إلى الليل} فدل أن ركن الصوم ما قلنا فلا يوجد الصوم بدونه."

(کتاب الصوم، ج2، ص:90، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"الجنب إذا أخر الإغتسال إلى وقت الصلاة لا يأثم. كذا في المحيط.قد نقل الشيخ سراج الدين الهندي الإجماع على أنه لا يجب الوضوء على المحدث والغسل على الجنب والحائض والنفساء قبل وجوب الصلاة أو إرادة ما لا يحل إلا به.

ولا بأس للجنب أن ينام ويعاود أهله قبل أن يتوضأ وإن توضأ فحسن."

(كتاب الطهارات،الباب الثاني ، الفصل الثالث فى المعانى الموجبة للغسل، ج:1، ص:16، ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں