بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا رشتہ داروں سے ملاقات کرنے کے اوقات و حدود


سوال

بیوی بہن کے گھر جانے کا کہہ رہی تھی، شوہر نے بیوی سے کہا: "جب تک میرے نکاح میں ہو، نہیں جا سکتی۔" اور 20 منٹ بعد کہہ دیا: "جب تک میرے نکاح میں ہو، جہاں مرضی جاؤ۔"اب پوچھنایہ ہےکہ:

1:کیابیوی کا بہن کے گھر جانا جائز ہے اور شوہر کو روکنے کا حق ہے یا نہیں؟

2:کیاشوہر کے ان الفاظ سے طلاق یا نکاح پر کوئی اثر پڑتا ہے؟

3:کیاایسی عمومی اجازت دینا شرعی طور پر درست ہے؟

جواب

1: اگر شوہربیوی کو اس کے والدین یا بہن بھائی کےگھر جانے سے روکنا چاہےتو شرعاً اسے یہ اختیار حاصل ہے۔ تاہم  وقتاً فوقتاً اپنےخاندان اور عرف کے مطابق اپنی بیوی کو والدین اور دیگر محارم،عزیز و اقارب سے ملاقات کےلیےاتفاق سےکوئی وقت یادن طےکرلیناچاہیے،ورنہ شریعت کی جانب سے عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ  وہ اپنے والدین سے ملاقات کی خاطر کچھ وقت کےلیے ہفتہ میں ایک دفعہ اور دیگر محرم رشتہ داروں سے سال میں  ایک دفعہ ملاقات کے  لیے جاسکتی ہے۔

2:مذکورہ الفاظ سے شوہرکی بیوی پرکوئی طلاق واقع نہیں ہوئی  ۔

3:بیوی کو اس طرح کی عمومی اجازت دینا کہ: "جب تک میرے نکاح میں ہو، جہاں چاہو جاؤ"ان الفاظ سےہرجگہ حتی کہ بےدینی  کےماحول یامجلس میں جانےکی اجازت دینابھی جائزنہیں،بلکہ بےدینی کےماحول اورمجالس اوربلاضرورت گھرسےباہرجانےسےروکنے کاشوہرکوحق حاصل ہے۔

الدرالمختارمیں ہے:

(ولا يمنعها من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي (ويمنعهم من الكينونة)وفي نسخة: من البيتوتة، لكن عبارة مثلا مسكين: من القرار (عندها) به يفتى.

(‌‌باب النفقة،ص:262،ط:دارالکتب )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك قال بعضهم: لا يمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا - رحمهم الله تعالى -، وعليه الفتوى كذا في فتاوى قاضي خان وقيل: لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرة، وعليه الفتوى كذا في غاية السروجي وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر، وقال مشايخ بلخ في كل سنة وعليه الفتوى."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتده،ج:1ص:557، ط:رشیدية)

فتح القدیرمیں ہے:

"وما عدا ذلك من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة لا يأذن لها ولا تخرج ولو أذن وخرجت كانا عاصيين وتمنع من الحمام، فإن أرادت أن تخرج إلى مجلس العلم بغير رضا الزوج ليس لها ذلك."

(‌‌باب النفقة،فصل على الزوج أن يسكنها في دار مفردة ليس فيها أحد من أهله ،ج:4،ص:398،ط:رشیدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں