بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا نام لیے بغیر اس کے روبرو تین طلاقیں دینا


سوال

میرے شوہر نے میرے منہ پر تین مرتبہ" طلاق، طلاق، طلاق" کہا ہے،اور وہ بول رہے ہیں کہ میرا ارادہ نہیں تھا،میں نے صرف طلاق بولا ہے دی نہیں ہے،اور کچھ نہیں بولا،میرا نام نہیں لیا تھا۔

میرے تین بچے ہیں ،میں اس گھر میں رہ سکتی ہوں،پردے کے ساتھ؟کیا مجھے طلاق ہوگئی ہے؟میں عدت کروں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعۃً سائلہ کے شوہر نے سائلہ کے سامنے سائلہ کو تین مرتبہ ان الفاظ سے طلاق دی ہے کہ :"طلاق ، طلاق ، طلاق"تو ان الفاظ سے سائلہ پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،سائلہ اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہیں،اب شوہر کے لیے رجوع یا تجدید نکاح کی اجازت نہیں ہے ۔ مطلقہ اپنی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو ،اگر حمل ہے تو بچہ کی پیدائش تک )مکمل کرکے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے۔سائلہ پر عدت گزارنا لازم ہے ۔ 

تین طلاقیں ہوجانے کے بعد مرد و عورت کا ایک ساتھ رہنا شرعا جائز نہیں ہے، البتہ اگر دونوں عمر رسیدہ ہوں اور ان کی جوان اولاد ہو ،جس کی وجہ سے تنہا نہ رہ سکتے ہوں اور ان کا مکان اتنا بڑاہے کہ دونوں اس میں جوان اولاد کے ساتھ پردہ کا خیال کرتے ہوئے اجنبیوں کی طرح الگ الگ اس طرح رہ سکتے ہوں کہ دونوں کے کمرے الگ ہوں، اور ان کا آمنا سامنا نہ ہو، اور گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مذکورہ طریقہ سے وہ ایک مکان میں اپنی جوان اولاد کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

لیکن  اگر اولاد ہونے کی صورت میں بھی دونوں شرعی پردہ کے ساتھ نہیں رہ سکتے، یا دونوں کے گناہ میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں بالکل علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے، اور ایک مکان میں رہنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌لتركه ‌الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ."

(کتاب الطلاق،ج3،ص248،ط؛سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"رہا طلاق میں اضافت کا شرط ہونا تو اضافت شرط ہونا صریح نہیں اضافت معنویہ بھی کافی ہے،اور وہ یہاں موجود ہے۔چنانچہ سوال میں مذکور ہے کہ زوجہ بڑبڑا رہی تھی تو زوج نے زوجہ کو دھمکانے کے لیے کہا۔کہ "فارغخطی"پھر کہا۔طلاق،طلاق،طلاق، دلالت حال اور مذکرہ  طلاق،اور قرائن اضافت معنویہ ہے۔"

(کتاب الطلاق،ج8،ص259،ط؛دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604102750

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں