میری بیوی جب بھی میکے جاتی ہے، سات دن یا پانچ دن سے کم نہیں رکتی اور اکثر واپس ہی نہیں آتی، اکثر مجھے جانا پڑتا ہے لانے کے لیے، اب تو معمول بن چکا ہے ان کا، پہلے دو بار گئیں اور ناراض ہو گئیں، واپس لائیں، لیکن اس بار چھوٹی عید کرنے گئیں اور اب بڑی عید آنے کو ہے، اب تک نہیں آئیں اور ضد ہے کہ میں لینے جاؤں ، میں بہت پریشان ہوں ۔ میری رہنمائی فرمائیں !
واضح رہے کہ میاں بیوی کا رشتہ قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے رابطوں سے نبھایا جائے تو یہ رشتہ کامیاب رہتا ہے، بصورتِ دیگر اس رشتے سے راحت کے بجائے اذیت ہی ملتی رہتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بیوی کو چاہیے کہ جب بھی میکے جائے شوہر سے اجازت لے کر جائے اور شوہر جتنے دن ٹھہرنے کی اجازت دے، اتنے ہی دن ٹھہرے، شوہر کی اجازت سے زیادہ ایک دن بھی نہ ٹھہرے، اسی طرح شوہر کو بھی چاہیے کہ کچھ عرصے میں بیوی کو خود میکے بھی چھوڑ آیا کرے اور واپس لینے بھی جایا کرے،لہٰذا مذکورہ صورت میں آپ کا یہ ضد کرنا درست نہیں کہ بیوی خود ہی واپس آجائے، بلکہ آپ کو میکے جاکر بیوی کو خود لے آنا چاہیے، بعض اوقات جانبین سے اس طرح کی معمولی باتوں پر ضد کرنا رشتۂ ازدواج کے لیے بہت زیادہ نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 602):
’’(و لايمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار و لو أبوها زمنًا مثلًا فاحتاجها فعليها تعاهده و لو كافرًا و إن أبى الزوج فتح (و لايمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي (ويمنعهم من الكينونة) وفي نسخة: من البيتوتة لكن عبارة منلا مسكين: من القرار (عندها) به يفتى خانية، ويمنعها من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة، وإن أذن كانا عاصيين كما مر في باب المهر.
(قوله: على ما اختاره في الاختيار) الذي رأيته في الاختيار شرح المختار: هكذا قيل لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين وقيل يمنع؛ ولا يمنعهما من الدخول إليها في كل جمعة وغيرهم من الأقارب في كل سنة هو المختار. اهـ فقوله هو المختار مقابله القول بالشهر في دخول المحارم كما أفاده في الدرر والفتح، نعم ما ذكره الشارح اختاره في فتح القدير حيث قال: وعن أبي يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدرا على إتيانها، فإن قدرا لا تذهب وهو حسن، وقد اختار بعض المشايخ منعها من الخروج إليهما وأشار إلى نقله في شرح المختار. و الحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت، وإلا ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد، فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إذا كانت شابة والزوج من ذوي الهيئات، بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر. اهـ. وهذا ترجيح منه لخلاف ما ذكر في البحر أنه الصحيح المفتى به من أنها تخرج للوالدين في كل جمعة بإذنه وبدونه، وللمحارم في كل سنة مرة بإذنه وبدونه.‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200841
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن