بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا جھوٹی قسم کھا کر شوہر سے طلاق لینا


سوال

میری شادی کچھ عرصہ قبل ہوئی چند عرصہ میں اپنے سسرال رہی لیکن شوہر کے ظلم وستم کی وجہ سے میں نے اپنی والدہ کو کہا کہ مزید نہیں رہناچاہتی  چنانچہ میری والد مجھے گھر لے آئی اس کے بعد میرے والد صاحب نے طلاق نامہ تیار کروایا اور اس پر میرے شوہر کے دستخط لینے کے لیے میرے سسر کے حوالے کردیا ،لیکن میرے سسرنے ایک مہینے تک ٹال مٹول سے کام لیاپھر میں خود اپنے والدین کے ساتھ اپنے سسرال گئی طلاق نامہ پر دستخط کروانے ،تو میرے شوہر نے طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے انکاکردیا لیکن میں نے جھوٹ کہا کہ انہوں نے مجھے کمرے میں طلاق دے دی، جس پر انہوں نے کہا کہ قرآن اٹھاؤ  اور میں نے قرآن پر ہاتھ رکھ جھوٹی قسم کھا لی، جس کے بعد میرے شوہر نےطلاق نامہ پر دستخط کردیے، اب سوال یہ ہے کہ آیا مجھے طلاق واقع ہوگئی ؟ نیز قرآن مجیدپر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانے کا کفارہ کیا ہوگا ؟

جواب

1.صورت مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے سائلہ  کی اس بات پر کہ یہ مجھے کمرے میں طلاق دے چکے ہیں اور سائلہ نے اس پر قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف بھی اٹھایا تو اگرچہ سائلہ نے جھوٹ بولا اورجھوٹی قسم کھائی لیکن جب شوہر نے طلاق نامہ پر جس پر تین طلاقیں  درج تھیں  دستخط کردیے تو سائلہ کے شوہر کا اس طلاق نامہ پر دستخط کرنے کی وجہ سے   سائلہ پر  تین طلاقیں  واقع ہوچکی ہیں ،  جس بناء پر سائلہ اپنے شوہر   پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی  ہے ،لہذا  میاں بیوی دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، اب نہ دورانِ عدت رجوع جائز ہے، اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی اجازت ہوگی، سائلہ عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے : 

"ولو قال للكاتب اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع ."

 (كتاب الطلاق ،مطلب فی الطلاق بالکتابۃ، 246/3- 247،ط:سعيد )    

وفیہ ایضا :

"ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً."

(کتاب الطلاق، 3 / 236،ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلوأما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."

(كتاب الطلاق ،الفصل السادس، 378/1 ط: ماجدیہ)

2.قرآنِ  کریم کی   جھوٹی قسم  کھانا سخت  ترین گناہِ کبیرہ ہے۔ حدیث شریف میں جھوٹی قسم کو شرک وغیرہ کے بعدبڑا اورسنگین گناہ کہاگیا ہے اور جھوٹی قسم جب قرآن اٹھاکر یا اس کا ذکر کرکے کھائی جائے تو اس گناہ  کی سنگینی مزید بڑھ  جاتی ہے، البتہ گزری ہوئی کسی بات پر جھوٹی قسم کھانے کاکوئی مالی کفارہ نہیں ہے،  بلکہ سچے دل سے توبہ کرنا اور گڑگڑاکر اللہ سے معافی مانگنا ضروری ہے، لہذا سائلہ کو چاہیے کہ توبہ استغفار کرے اور اللہ سےسچے دل سے ندامت کے ساتھ اس جرم کی  معافی مانگے ،  اورآئندہ کے لیے اس طرح نہ کرنے کا عزم کرے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولايخفى أنّ الحلف بالقرآن الآن متعارف؛ فيكون يمينًا."

(3 / 712،ط: سعید)

ہدایہ میں ہے :

"الأيمان ‌على ‌ثلاثة أضرب اليمين العموس ويمين منعقدة ويمين لغو فالغموس هو الحلف على أمر ماض يتعمد الكذب فيه فهذه اليمين يأثم فيها صاحبها لقوله عليه الصلاة والسلام: من حلف كاذبا أدخله الله النار،  ولا كفارة فيها إلا التوبة والاستغفار."

(کتاب الأیمان ، 3 /317 ، ط:بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں