بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرنا


سوال

 لڑکے اور لڑکی کا نکاح دو سال پہلے ہوا۔ پچھلے ایک سال سے لڑکی خاوند سے طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے، اس صورت میں اللہ کا حکم کیا ہے؟ اگر خاوند طلاق نہیں دیتا تو کیا وہ گناہ گار ہو گا؟ کیا اس صورت میں بیوی خلع لی سکتی ہے؟ برائے مہربانی خاوند اور اسکی اہلیہ کے حقوق کی وضاحت کریں۔

دونوں تبلیغی گھرانے  سے ہیں، خاوند  کے چار ماہ لگ چکے ہیں اور لڑکی دین دار  اور  نقاب پوش ہے۔  ایجاب و قبول کے وقت لڑکی کے والد صاحب نے لڑکی  کی  طرف سے قبول کیا تھا۔  اس  وقت  لڑکی  راضی  تھی  اور  اُس نے اپنے والد صاحب کو نکاح کے لیے ہاں بولا تھا۔ نکاح کی پہلی رات سے لے کے ابھی تک لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ صحبت کرنے پر راضی نہیں ہوئی۔ خاوند صبر و تحمل سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شادی کے پہلے چھ مہینے خاوند  اِن ڈائریکٹ لی  اور  بغیر زبردستی اہلیہ سے مانگتا رہا، لیکن وہ نہیں مانی۔ اس چھ مہینے میں لڑکی خاموش و گم سم رہتی اور صحیح سے بات نہیں کرتی تھی۔ لڑکی نے اپنے طور پر، بغیر مشورے کے، ماہر نفسیات کے ساتھ تھراپی کرنا شروع کر دیا اور ڈپریشن کی گولیاں بھی لے رہی ہے۔ اس کے  بعد لڑکی بولنے لگی کہ میں خاوند سے صحبت نہیں کر سکتی۔ اب نکاح کو دو سال ہو گئے۔ اب تک وہ ڈپریشن کی گولیاں لے رہی ہیں۔  لڑکی اپنی بات پہ ڈٹی ہے اور طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پوچھنے پر لڑکی بول رہی ہےکہ میرے خاوند میں کوئی کمی اور خامی نہیں ہے، صرف میں ان سے صحبت نہیں کرنا چاہتی، نکاح کے بعد میرا ذہن بدل گیا۔ خاوند نے پہلی رات سے ہر قسم کے حقوق ادا کیے ہے، مثلاً مهر، وقت گزاری، الگ گھر، نفقہ، کپڑے، وغیرہ وغیرہ۔ خاوند صبر و برداشت کرتا جا رہا ہے اور سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں بیوی کے جو خدشات ہیں ان پر بات کی جائے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے،خاندان کے بڑوں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی جائےساتھ ساتھ اس کو شوہر کے حقوق کی ادائیگی کی ترغیب اور اس سے لاپرواہی پر وعیدات بھی بیان کی جائیں نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں۔ دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ، ارشاد نبوی ہے:  بالفرض اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، بلا کسی ضرورت کے بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں، نبی کریم ﷺ  نے شرعی وجہ کے بغیر طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنے والی عورت کو منافق قرار دیا ہے۔، اگر پھر بھی وہ طلاق یا خلع کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں شوہر پر کوئی گناہ نہیں ہوگا کہ وہ اس کو طلاق دے یا خلع دے،البتہ طلاق دینے کی صورت میں مہر واپس لینے کا اختیار نہیں ہو گا ، اگر خلع مہر کے عوض میں دیا جائے تو مہر کی رقم یا زیورات واپس لینے کا حق ہو گا۔

سنن أبی داؤد میں ہے:

"عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ’’أبغض ‌الحلال إلى الله تعالى الطلاق."

(باب في كراهية الطلاق،  رقم:2178، ج:2، ص:255، ط:المكتبة العصرية)

وفيه أیضاً:

"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’أيما ‌امرأة ‌سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة."

(باب في الخلع،  رقم:2226، ج:2، ص:268، ط:المكتبة العصرية)

مشکوۃ شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ’’المنتزعات والمختلعات هن المنافقات‘‘ . رواه النسائي."

 (كتاب النكاح، باب الخلع و الطلاق، الفصل الثالث، رقم:3290، ج:2، ص:980، ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: ’’ أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق‘‘. قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ ."

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:228، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100810

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں