بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا ناراض ہوکر میکے جا کے بیٹھ جانے کاحکم


سوال

میری شادی کو 7 مہینے ہوئے ہیں اور 4 مہینوں سے میری بیوی اپنی ماں کے گھر روٹھ کر بیٹھ گئی ہے، میں اپنی تمام کوششیں کر چکا ہوں پر وہ لوگ کسی بات پہ سمجھوتہ نہیں کررہے ہیں میرے ساتھ، جب کہ میری بیوی کا مسئلہ بھی ایسا ہے کہ وہ میرے کسی کام کی نہیں ہے نہ تو مجھے اولاد دے سکتی ہے، نہ ہی میرا حق ادا کر سکتی ہے، اس کے ساتھ ایک بیماری لاحق ہے جس کا میں علاج بھی کروانا چاہتا ہوں، پر وہ بول رہی ہے کہ میں علاج بھی اپنی ماں کے گھر سے کراؤں گی، جس کی اجازت مجھے اسلام دیتا ہے نہ معاشرہ نہ ہی میری غیرت، میری اسلام کی روشنی سنت اور حدیث مطابق رہنمائی فرمایئے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  شادی کے تین ماہ  بعد عورت  کسی وجہ سے ناراض ہوکر میکہ چلی گئی، اگر عورت کا عذر معقول ہے اور شوہر اس شکایت کو دور کرنے پر آمادہ ہے  اور رضامندی سے گھر بنانے کی کوشش کررہاہے اور معقول شکایت کے ازالہ کی ضمانت دے رہاہے تو سائل کی بیوی اور اس کے گھر والوں کو بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،نیزاس معاملہ کے حل کے لیے سائل کو چاہیئے کہ دونوں خاندانوں کے معزز افراد کو درمیان  میں ڈال کر افہام وتفہیم سے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرے، یا کسی معتبر دارالافتاء میں جانبین حاضرہو کر اپنے معاملہ کا تصفیہ کروائے، تا ہم جب تک سائل کی بیوی سائل کے بلانے کے باوجود اس  کے گھر نہیں آئے گی اس وقت تک سائل پر اپنی بیوی کا نفقہ اور علاج ومعالجہ لازم نہیں ہے۔

درالمختار میں ہے:

"و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود".

(باب النفقة، ج:3،ص:576،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310101141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں