1)میرے شوہر کا دس مہینے پہلے انتقال ہو گیا ہے،میرے مرحوم شوہر نے میرے نام ایک مکان لیا ہے،جس میں پیسے کم پڑ رہے تھے تو میں نے اپنے زیورات بیچ کر ملائے تھے،گھر میں شراکت داری کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی ،بس یہ بات ہوئی تھی کہ گھر خریدنے میں پیسے کم پڑ رہے تھےتو میں نے کہا کہ میں زیور بیچ کر پیسے دے دیتی ہوں ،انہوں نے میرے نام گھر خریدا اور کہا کہ گھر اب تمہارا ہے،میرے شوہر کے ورثاء میں بیوہ ،2 بہنیں ہیں،والدین کا پہلے انتقال ہو گیا تھا، اولاد نہیں ہے۔
2)میرے شوہر کرایہ کا جنرل اسٹور چلاتے تھے، جس پر ایک لڑکا بچپن سے کام کرتا تھا ،اب اس کی شادی بھی ہوگئی ہے،کام وہی چلا رہا ہے،میرے شوہر اسے اپنا بیٹا کہتے تھے،شوہر نے زندگی میں دکان اس کے سپرد کردی تھی اور وہ اپنا اور ہمارا خرچہ اٹھاتا رہا،میرے شوہر نے ایک دفعہ کہا تھاکہ تم اگر اس مکان کو بیچو تو اس لڑکے کو بھی دینا،تو کیا اس لڑکے کا حق شرعی طور پر بنتاہے؟
وضاحت:سائلہ پہلے اپنے شوہر کےساتھ سسرال میں رہتی تھی،پھر مذکورہ گھر سائلہ کے نام خریدا گیا اور دونوں میاں بیوی اس میں منتقل ہوگئے۔
1)صورتِ مسئولہ میں جب کہ سائلہ نے اپنے شوہر کو گھر خریدنے کے لئے پیسے قرض یا شراکت کی صراحت کے بغیر بطور تعاون دیے تھے ،تو یہ رقم ان کے شوہر کے ساتھ تبرع اور احسان شمار ہوگا،لہذا سائلہ اس رقم کو شوہر کے ترکہ میں سے نہیں لےسکتی،جب کہ مذکورہ گھر جسے سائلہ کے شوہر نے ان کے نام لیاتھااورخرید کر یہ کہا تھا یہ گھر تمہارا ہے،پھر اس گھر میں منتقل ہوگئے تھے،یہ ہبہ (گفٹ) کے حکم میں ہے اور سائلہ کی ملکیت ہے،اس میں سائلہ کے شوہر کے دیگر ورثاء کا حق نہیں ۔سائلہ کے شوہر کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سائلہ کے شوہر کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی مالیت لگا کر 8 حصوں میں تقسیم کر کےمرحوم کی بیوہ کو 2 حصے اور مرحوم کی ہر ایک بہن کو 3 حصے ملیں گے،صورتِ تقسیم یہ ہوگی:
(میت:شوہر)4 / 8
بیوہ | بہن | بہن |
1 | 3 | |
2 | 3 | 3 |
یعنی 100 روپے میں سے بیوہ کو 25 روپے اور ہر ایک بہن کو 37.5 روپے ملیں گے۔
2)مذکورہ لڑکا جسے سائلہ کے شوہر نے گھر بیچ کر کچھ دینے کا کہا تھا،چوں کہ یہ نہ مرحوم کا شرعی وارث ہے اور نہ ہی مرحوم نے اس کے حق میں وصیت کی ہے،لہذا مذکورہ گھر میں مذکورہ لڑکے کا کوئی حصہ نہیں،البتہ مرحوم کا یہ کہنا کے"تم اگر اس مکان کو بیچو تو اس لڑکے کو بھی دینا" وعدہ شمار ہو گا اور سائلہ کو چاہیے کہ جب گھر فروخت کرے تو اس میں سے جو چاہے اپنی خوشی سے مذکورہ لڑکے کو دے دے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وفي المنتقى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا يجوز للرجل أن يهب لامرأته ولا أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارا وهما فيها ساكنان، وكذلك للولد الكبير، كذا في الذخيرة."
(كتاب الهبة،الباب الثاني،ج:4،ص:380،ط:رشیدیہ)
الدر المختار میں ہے:
"وركنها قوله: وأوصيت بكذا لفلان وما يجري مجراه من الألفاظ المستعملة فيها."
(کتاب الوصایا،ج6،ص:650،ط:سعید)
درر الحکام میں ہے:
(هبة دار مشتراة قبلالقبض) متعلق بالهبة (تجوز) يعني إذااشترىدارا فقبل أنيقبضها وهبها لآخر جازت الهبة لما عرفت أن التصرف في العقار قبلالقبض يجوز."
(كتاب الهبة،باب الرجوع في الهبة،ج:2،ص:221،ط:دار إحياء الكتب العربية)
موسوعۃ فقھیہ کویتیہ میں ہے:
"أوجب الإسلام الوفاء بالعهد، والتزمه رسول الله صلى الله عليه وسلم، في جميع عهوده، تحقيقا لقوله تعالى: وأوفوا بعهد الله إذا عاهدتم ونفى الدين عمن لا عهد له فقال صلى الله عليه وسلم لا دين لمن لا عهد له ومن صور التزامه العهد: وفاؤه بالوثيقة التي عقدها لليهود عندما هاجر إلى المدينة، وصلح الحديبية. وغيرهما،ومن صور الوفاء بالعهد. ما يعهد به الحاكم إلى من بعده، كما عهد أبو بكر إلى عمر - رضي الله عنهما - وعهد عمر إلى أهل الشورى رضي الله عنهم ونقض العهد محرم قطعا."
(عهد،ج:31،ص:34،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507100208
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن