بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا بچوں کے والد کو ان سے ملنے نہ دینے کا حکم / بچوں کے اخراجات کا حکم


سوال

میری بیوی نے عدالت سے خلع لے لی ہے ،جس کے بارے میں ایک دوسرا سوال جمع کرایا ہے،میرے دو بچے ہیں ،میرے دونوں بچے میری بیوی کے پاس ہیں ،ان لوگوں کی بد معاشی کی وجہ سے گزشتہ 9 ماہ سےمیں اپنے  بچوں سے نہیں ملا ہوں ،اب ایک کیس کورٹ میں ہے ،کیس میں 156500 روپے ماہانہ براۓ اخراجات بچوں کی رہائش، کھانا، تعلیم اور دیگر اخراجات کا مطالبہ کیا ہے؟براہِ کرم یہ فرمادیں کہ کیا قرآن و سنت کی روشی میں  ان کا یہ قدم درست ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل کی بیوی کا سائل کو اپنے بچوں سے ملنے نہ دینا شرعاً ناجائز اور ظلم ہےاور اس پر بیوی گناہ گار ہوگی،بیوی پر لازم ہے کہ وہ سائل کو اپنے بچوں سے ملنے دے اور اگر وہ سائل کو اپنے بچوں سے پھر بھی نہ ملنے دے تو سائل اس صورت میں عدالت سے مدد طلب کر سکتا ہے۔

باقی بچوں کے نان و نفقہ اور علاج معالجہ ،تعلیم وغیرہ کے اخراجات   والد کے ذمہ ان کی استطاعت کے بقدر لازم ہوتے ہیں،بیٹے کے اخراجات بالغ ہو کر  کمانے کے قابل ہونے تک او ربیٹی کے اخراجات اس کی شادی ہونے تک والد کے ذمہ ہوتے ہیں، البتہ شریعت نے اس کی کوئی خاص مقدارمقرر نہیں کی ،لہذا بچوں کے والد  کی مالی وسعت اور بچوں کی ضروریات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے آپس میں ماہانہ خرچہ  مقرر کرلیاجائےاور اسی طرح بچی کی شادی کے اخراجات بھی والد پر اس کی استطاعت کے بقدر لازم ہوں گےاور اس میں بہتر یہ ہے کہ دونوں خاندانوں کے معزز اور سمجھ دار بزرگ افراد باہم بیٹھ کر کوئی خرچ مقرر کرلیں،بچوں کےاخراجات کے بارے میں  والد کی وسعت سے زیادہ کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہوتا، واضح رہے کہ جب معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے تو اب جج صاحب کا کام ہوگا کہ وہ بچوں کی ضروریات اور بچوں کے والد کی آمدنی کا جائزہ لے کر مناسب نان و نفقہ کی مقدار طے کریں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."

(کتاب الطلاق ،الباب السادس عشر  فی الحضانة ،ج:543/1،ط:رشیدیة)

وفيه أيضا:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد..ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة.ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق ، الباب السابع عشر ،الفصل الرابع في نفقة الأولاد،562/1،ط: رشيدية)

وفيه أيضا:

"و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد".

(كتاب الطلاق ، الباب السابع عشر ،الفصل الرابع في نفقة الأولا،561/1،ط: رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الذخيرة أن الأم إذا خاصمت في نفقة الأولاد فإن القاضي يفرض على الأب نفقة الصغار الفقراء ويدفع النفقة إليها؛ لأنها أرفق بالأولاد فإن قال الأب إنها لا تنفق وتضيق عليهم لا يقبل قوله؛ لأنها أمينة ودعوى الخيانة على الأمين لا تسمع من غير حجة فإن قال للقاضي سل جيرانها فالقاضي يسأل جيرانها احتياطا. وإنما يسأل من كان يداخلها فإن أخبر جيرانها بما قال الأب زجرها القاضي ومنعها عن ذلك نظرا لهم ومن مشايخنا من قال إذا وقعت المنازعة بين الزوجين كذلك وظهر قدر النفقة فالقاضي بالخيار إن شاء دفعها إلى ثقة يدفعها إليها صباحا ومساء ولا يدفع إليها جملة وإن شاء أمر غيرها أن ينفق على الأولاد."

(كتاب الطلاق،باب النفقة،النفقة والسكني و الكسوة لولده الصغيرالفقير،219/،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں