بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا اپنے والدین اور دیگر اقارب سے ملاقات کی مدت


سوال

1-بیوی کو کتنی بار اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے گھر جانا چاہیے اور کتنی بار اپنے والدین کے پاس رہنا چاہیے اور اگر شوہر اجازت دے تو کتنے دن تک رہے؟

2-اور کیا اس کے سسرال والے اسے اپنے میکے میں رہنے سے روک سکتے ہیں؟

3-عورت   اپنی خالہ یا  چچا سے کتنی بار مل سکتی ہے؟

جواب

1-واضح رہے کہ شوہر کے لیے اس بات کی شرعاً اجازت نہیں ہے  کہ وہ اپنی بیوی کو اس کے والدین یا سگے رشتہ داروں سے ملنے سے روکے ،بلکہ بیوی ہفتہ میں ایک بار اپنے والدین سے ملنے کا حق رکھتی ہے اور اسی طرح سال میں ایک بار اپنے  دیگر محارم رشتہ داروں سے             ملنے کا بھی حق  رکھتی ہے؛  لہذا صورتِ  مسئولہ میں بیوی اپنے شوہر کی رضامندی سے جتنا عرصہ چاہے ، والدین کے گھر  رہ سکتی ہے۔

2- واضح رہے کہ بیوی کو کسی بھی غرض سے گھر سے باہر جانے کے لیے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے،سسرال والوں   سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے،البتہ سسرال والوں  کو بھی بتا کر جائے تو بہتر ہے؛ تاکہ ان کی دعا بھی ملے اور گھر کا ماحول بھی  خوشگوار  رہے،لہذا صورتِ  مسئولہ میں  سسرال والے اسے میکے میں رہنے سے روک  نہیں سکتے ہیں جب کہ شوہر کی اسے اجازت ہو،  مگر سب کی اجازت اور خوشی سے وہاں رہے تو بہتر ہے؛ تاکہ تعلقات میں خوشگواری برقرار رہے ۔

3- سال میں ایک بار اپنے  دیگر محارم رشتہ داروں(  خالہ یا چچا  وغیرہ )سے      ملنے کا بھی  حق رکھتی ہے ۔

تفسیر الراغب الأصفهاني میں ہے:

"وقوله: {وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ} يتبين أن لكل واحد على الآخر حقاً كحق الآخر، فمما تشاركا فيه مراعاتهما للمعنى الذي شرع لأجله النكاح وهو طلب النسل، وتربية الولد، ومعاشرة كل واحد منهما للآخر بالمعروف وحفظ المنزل، وتدبير ما فيه وسياسة ما تحت أيديهما، حماية كل واحد على الآخر بقدر جهده وحده."

(تفسير سورة البقرة،الآية،٤٦٩/١،ط:كلية الآداب)

الترغیب والترہیب میں ہے:

"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله أخبرني ما حق الزوج على الزوجة فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيما قال فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعا إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع."

(كتاب النكاح وما يتعلق به،٣٨/٣، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"الصحيح المفتى به من ‌أنها ‌تخرج ‌للوالدين في كل جمعة بإذنه وبدونه، وللمحارم في كل سنة مرة بإذنه."

(باب النفقة،مطلب في الكلام على المؤنسة،٦٠٣/٣، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدا من أهلها منالدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك قال بعضهم: لا يمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا - رحمهم الله تعالى -، وعليه الفتوى كذا في فتاوى قاضي خان وقيل: لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرة، وعليه الفتوى كذا في غاية السروجي وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر، وقال مشايخ بلخ في كل سنة وعليه الفتوى."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتده،٥٥٧/١، ط:دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100907

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں