بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا الگ رہائش کا مطالبہ کرنا


سوال

اگر بہوساتھ نہ رہنا چاہے تو  کیا سسرال والوں پر لازم ہے کہ رہائش مہیا کریں؟

جواب

علیحدہ رہائش بیوی کا حق ہے، اور اس کا انتظام اصولاً شوہر کے ذمے ہے، نہ کہ سسرال کے ذمے، تاہم بیوی کو مستقل اور الگ رہائش دینے کے معاملہ میں  شریعت نے شوہر  کی استطاعت اورحیثیت کوملحوظ رکھاہے ، اگرشوہرزیادہ  مال دار ہے اور اس کی استطاعت ہے کہ وہ مستقل طورپر علیحدہ گھر کا انتظام کرے  اور بیوی بھی شریف اور اعلی خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو بیوی کو الگ گھر کے مطالبے کا حق ہوگا، لیکن شوہر کی حیثیت کو مدنظر رکھ کر درمیانے درجے کے گھر کا انتظام کرنا  لازم ہوگا۔

اور اگرشوہراتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ مکمل طورپر جدا گھر  دے  تو گھر میں سے ایک ایسا جدا مستقل کمرہ جس  کا بیت الخلا، باورچی خانہ وغیرہ الگ ہو اورعورت کی ضروریات کو کافی ہوجائے،جس میں وہ اپنامال و اسباب تالا لگا کر رکھ  سکے، کسی اور کی اس میں دخل اندازی نہ ہو،  ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك". (الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)

فتاوى شامي میں ہے:

"إن أمكنه أن يجعل لها بيتًا على حدة في داره ليس لها غير ذلك". (مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)

اسی نوعیت کے ایک مسئلہ سے متعلق حکیم العصرحضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے:

’’بیوی کوعلیحدہ جگہ میں رکھنا(خواہ اسی مکان کاایک حصہ ہو،جس میں اس کے سوادوسرے کاعمل دخل نہ ہو)شوہرکے ذمے شرعاً واجب ہے،بیوی اگرخوشی سے شوہرکے والدین کے ساتھ رہناچاہے اوران کی خدمت کواپنی سعادت سمجھے توٹھیک ہے،لیکن اگروہ علیحدہ رہائش کی خواہش مند ہوتواسے والدین کے ساتھ رہنے پرمجبورنہ کیاجائے،بلکہ اس کی جائزخواہش کاجواس کا شرعی حق ہے ،احترام کیاجائے ... والدین کی خوشی کے لیے بیوی کی حق تلفی کرناجائزنہیں۔ قیامت کے دن آدمی سے اس کے ذمے کے حقوق کامطالبہ ہوگا اورجس نے ذرابھی کسی پرزیادتی کی ہوگی یا حق تلفی کی ہوگی مظلوم کواس سے بدلہ دلایاجائے گا۔بہت سے وہ لوگ جو یہاں اپنے کوحق پرسمجھتے ہیں، وہاں جاکران پرکھلے گاکہ وہ حق پرنہیں تھے، اپنی خواہش اورچاہت پر چلنادین داری نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پرچلنادین داری ہے‘‘۔ (آپ کے مسائل اوران کاحل،والدین اوراولادکے تعلقات،والدین کی خوشی پربیوی کی حق تلفی ناجائزہے،جلد:8،صفحہ:572،ط:مکتبہ لدھیانوی کراچی)

مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’مردکے ذمہ واجب ہے کہ عورت کوایک مکان علیحدہ رہنے کے لیے دےکہ اس مکان میں شوہرکے ماں باپ بہن بھائی وغیرہ نہ رہتے ہوں،بلکہ وہ پورابیوی کے قبضہ وتصرف میں ہو،اورمکان سے مرادایک کمرہ یاکوٹھاہے جس کوعربی میں’’بیت‘‘کہتے ہیں ،لہذااگرصحن وغیر ہ مشترک ہوجس کوشوہرکے دوسرے عزیزبھی استعمال کرتے ہوں اوربیوی بھی تواس کومطالبے کاحق نہیں کہ میراصحن بھی مستقل ہوناچاہیے،اس میں بھی کسی کی شرکت نہ ہو۔ یہ اس وقت ہے جب کہ شوہراوربیوی دونوں زیادہ مال دارنہ ہوں، بلکہ متوسط درجے کے ہوں،اگرمال دارہوں اورشوہرمیں اس قدراستطاعت ہوکہ کوئی مستقل گھرعلیحدہ بیوی کودے سکتاہے ،خواہ خریدکر،خواہ کرایہ پر،خواہ عاریت پرجس کاصحن وغیرہ بھی علیحدہ ہو جس کوعربی میں ’’دار‘‘کہتے ہیں،توعورت کواس مطالبے کاحق حاصل ہے‘‘۔ (فتاویٰ محمودیہ، 13/ 448،447، ط:جامعہ فاروقیہ کراچی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں