بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا الگ رہائش کا مطالبہ کرنا


سوال

میرے شوہر اپنے عزیزوں (جن میں ان کے والدین اور بہن بھائی شامل ہیں ان)  میں مجھے کوئی مقام نہیں دیتے۔شادی کو 27واں سال ہے۔میں سلائی کرتی ہوں میرے شوہر بقدر ضرورت کھانا اورکپڑادیتے ہیں (کوئی جیب خرچ نہیں دیتے۔مانگوں تو کہہ دیتے ہیں کماتی ہو اپنے استعمال کرو)۔مگر مجھے اور میرے 3 بچوں کو سسرال میں ہی رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔میں نے گزشتہ ۱۸۔۱۹ سال سلائی کا کام کیا اور کچھ رقم جمع کی ہے۔تاکہ میں کوئی چھوٹا گھر لے سکوں اور میری فیملی وہاں شفٹ ہو جائے۔ایک بات یہ بھی ہے کہ میرے شوہر نے سب حالات جانتے ہوئے ایک گھر شروع کیا اور بجائے اس کا ایک حصہ مکمل کر کے وہاں جانے کے 2 نامکمل منزل بنا کر چھوڑ دی کہ میرے پاس پیسے ختم ہو گئے۔اب میں چاہتی ہوں کہ میں اپنی جمع پونجی سے گھر لے کر وہاں چلی جاؤں تو وہ کہتے ہیں کہ نہ میں وہاں تمہارے ساتھ جاؤں گا نہ میرے عزیز جائیں گے۔اگر ان کے عزیز میرے گھر نہیں آنا چاہتے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر یہاں میرے گھر آرہے ہیں تو صرف میرے شوہر سے ملنے آتے ہیں میرے ساتھ تعلق نہیں رکھنا چاہتےاب بھی میرے شوہر صرف اپنے عزیزوں کا مفاد دیکھ رہے ہیں۔میرا یا بچوں کا نہیں۔میرے شوہر کہتے ہیں تم بچوں کو لےکر جا کیسےسکتی ہو۔یعنی وہ سمجھتے ہیں میں بچوں کو توڑ کر لے جا رہی ہوں جبکہ بچوں کو میں نے جنم دیا پروان چڑھانے میں اپنا ہر فرض پورا کیا۔ مجھے صرف اپنا گھر چاہئے جہاں زندگی کا سکون ہو۔اس وقت تک جب تک وہ اپنا گھر مکمل نہ کر لیں.پھر ہم شوہر کے گھر میں چلے جائیں۔بچےمیرے ساتھ جانا چاہتے ہیں کیوں کہ انہوں نے بھی یہاں کافی پابندیوں والی زندگی گزاری ہے۔خدارا مجھے بتائے میں اپنا الگ رہنے کا جائز حق کیسے حاصل کروں؟ میں ان دنوں میں نیٹ پر چھوٹا گھر ڈھونڈ رہی تھی۔یہ بات کافی بار میں شوہر کو بتا چکی تھی کہ مہربانی کر کے گھر لینے میں میری مدد کر دو۔ دو دن پہلےمیں 1 گھر پسند کر کے ان کو دکھا رہی تھی انہوں نے میری ساری خوشی مسمار کر دی یہ کہہ کر کہ میں تمہارے گھر میں نہیں جاؤں گا۔بچے یہاں رہنا نہیں چاہتے۔ شوہر نے اس بات پریہ بات مانی کہ تم پیسے مجھے دے دو میں اپنا گھر رہنے لائق کر کے بھیج دوں گا۔اور تمہاری رقم میں 1 ڈیڑھ سال میں واپس کر دوں گا۔اور میں نے جو شدید محنت کے بعد گھر کی آس لگائی تھی وہ ملیامیٹ ہو گئی۔کیامیں پیسے ان کو دے دوں۔ وہ میرے ساتھ یہ زیادتی کرنے کا حق رکھتے ہیں؟دراصل وہ نہیں چاہتے کہ میں ان سے پہلے گھر بنا لوں.میں ان سے کہتی تھی میرا ساتھ دو ہم مل کر بنا لیں گے مگر وہ نہیں مانے۔تو میں نے تنہا ہی یہ بیڑا اٹھایاجبکہ اس آس میں میں نے نہ اپنی صحت کا خیال کیا نہ آرام کا۔ پلیز جو حق ہیں وہ بھی بتا دیں اور جو مصلحت ہو وہ بھی بتا دیں۔

جواب

شریعتِ مطہرہ نے شوہر کو  اپنی  بیوی کے نان و نفقہ  کی ادائیگی اور  اسے علیحدہ  رہائش فراہم کرنے کا پابند کیا ہے، تاہم  رہائش سے مراد ایسا کمرہ  فراہم کرنا ہے، جس میں شوہر کے گھر والوں کی مداخلت نہ ہو،  نیز  اگر بیوی شوہر کے گھر والوں کے ساتھ  مشترکہ طور پر کھانا پکانا اور کھانا نہیں چاہتی تو  الگ پکانے کی سہولت فراہم کرنا بھی ضروری ہے، اسی طرح علیحدہ بیت الخلاء کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے، علیحدہ بیت الخلاء بھی بیوی کا حق ہے۔  یہ سہولت والدین کے ساتھ  ایک ہی گھر میں فراہم کردے تب بھی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں، باقی اگر شوہر الگ گھر میں ٹھہرانے کی استطاعت رکھتا ہے اور اس میں مصلحت سمجھتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے، تاہم اس قسم کے مطالبہ کا حق بیوی کو نہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے شوہر کی استطاعت اتنی نہیں ہے کہ وہ آپ کو الگ گھر دلا سکیں تو آپ ان سے اس  کا مطالبہ نہ کیجیے، اسی گھر میں علیحدہ کمرہ، واش روم اور کچن کی سہولت دے دیں تو ان کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی۔

باقی آپ نے سلائی کر کے جو مال کمایا ہے وہ رقم شرعا آپ کی ملکیت ہے،شوہر کا اس میں کوئی حق نہیں ہے، آپ اس رقم سے اپنے نام پر کوئی گھر لےلیں یہ زیادہ بہتر ہے اور اگر شوہر کو دینا چاہتی ہیں تو گھر کا اتنا حصہ باقاعدہ رجسٹر کرکے اپنے نام کروالیں جو آپ کی رقم کے حساب سے بنتے ہیں تاکہ بعد میں پریشانی نہ ہو، ابھی تو گھر نہیں لیکن پیسے ہیں، کل ایسا نہ ہو کہ گھر اور پیسے دونوں نہ ہوں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك".

 (الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)

 فتاوی  شامی میں ہے:

"إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".

 (مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں